سیاسی درجہ حرارت میں کمی کا امکان

سیاسی درجہ حرارت میں کمی کا امکان
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کے درمیان ہونے والی بات چیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کی کوئی راہ نکل آئے گی۔ سردار ایاز صادق نے اس بات کو بھی شکوہ کیا ہے وہ اپوزیشن اور حکومت کی بات چیت کے لئے ماحول بناتے ہیں کہ کسی نہ کسی معاملے پر بات چیت کی امید ختم ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ان کی ان کاوشوں کا انہیں کوئی صلہ نہیں ملا تاہم اس کے باوجود وہ بات چیت کرانے کے لئے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے علامہ ناصر عباس کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کے سوال پر سپیکر نے کہا وہ عدالتی حکم کی وجہ سے بے بس ہیں جب تک عدالت فیصلہ نہیں کرتی وہ انہیں اپوزیشن لیڈر نامزد نہیں کر سکتے اس سلسلے میں چیف وہپ کو لکھے گئے خط کی نقل بھی انہیں دکھائی گئی۔ بانی پی ٹی کو جیل میں سہولتوں کی فراہمی بارے حکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی ہے جس کی سربراہی وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کریں گے بہت جلد سنٹرل جیل راولپنڈی جا کر بانی پی ٹی آئی کو ملنے والی سہولتوں کا جائزہ لے گی۔ سوال ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی کے پشاور میں جلسہ سے خطاب کے بعد اس بات کی امید کی جاسکتی ہے پارلیمانی کمیٹی کو سنٹرل جیل کا دورہ کرنے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مثبت بات چیت کے نتیجہ میں سیاسی درجہ حرارت میں کمی آسکے گی؟ دراصل وزیراعلیٰ کے پی کے نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد جس انداز سے بات چیت کی اس نے طاقتور حلقوں کی مزید ناراضگی مول لے لی ہے حالانکہ انہیں بڑے دھمیے انداز میں اپنے صوبے کے مسائل کو حل کرنے بالخصوص صوبے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تعاون کا ہاتھ بڑھانے کی بات کرنی چاہیے تھی۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو حکومتی حلقوں میں بھی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ایک طرف سپیکر سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی طرف گامزن ہیں تو دوسری طرف وزیرمملکت داخلہ بانی پی ٹی آئی کو کسی اور جیل میں منتقل کرنے کا بھاشن دے رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بہت اچھی بات کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، جس کا مطلب واضح ہے حکومت اور اپوزیشن کو بات چیت کے لئے سنجیدہ ہونا چاہیے ۔ گو پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، جس کا بانی کئی ایک مقدمات میں جیل میں ہے، جبکہ پارٹی کے بیشتر رہنما اور ورکر بھی جیلوں میں ہیں، لہذا اس مقصد کے لئے پی ٹی آئی کو بھی اپنا درجہ حرارت کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سمجھ داری کا تقاضا تو یہی ہوتا ہے مشکل وقت سے نکلنے کے لئے کوئی سبیل نکالنی چاہیے نہ کہ جن حلقوں سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی امید کی جا سکتی ہے انہیں نالاں رکھا جائے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے بظاہر فوج بھی اپنی اور ادارے بھی اپنے کی گردان کی بجائے یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے پی ٹی آئی رہنما اپنی افواج کی قربانیوں کے معترف ہیں، بدقسمتی سے پی ٹی آئی کا ہدف فیلڈ مارشل ہوتے ہیں۔ اللہ کے بندوں ایوب خان بھی تو فیلڈ مارشل تھا اس کے دور میں جتنے ترقیاتی کام ہوئے ملکی تاریخ میں کسی حکمران نے نہیں کرائے۔ بانی پی ٹی آئی کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے انہیں اقتدار میں کون لایا تھا۔ بہتر تو یہی تھا حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے بانی اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اور ایوان میں اپنا سیاسی کردار ادا کرتے۔ بلاشبہ عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کی حامی ہے جیل میں رہتے ہوئے عمران خان پہلے سے زیادہ مظلوم ٹھہرا ہے لیکن جب طاقت کا سرچشمہ کوئی ہو تو پھر معاملات کو حالات کی روشنی میں چلا یا جا نا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی سب سے بڑی مشکل بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہے عمران خان بھی وقفے وقفے سے فیلڈ مارشل کے خلاف بیانات کی بارش کرتے رہتے ہیں حالانکہ انہیں ماضی کی باتوں کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی رہائی کے لئے پارٹی رہنمائوں کو حکومتی حلقوں سے بات چیت کا کوئی راستہ نکالنے کی گائیڈ لائن دینی چاہیے۔ وقفے وقفے سے اڈیالہ روڈ پر بانی کی ہمشیرگان بھائی سے ملاقات کے لئے دربدر ہوتی ہیں، کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے بانی سے ملاقات کے لئے جلد بازی کا جو مظاہرہ کیا جس سے معاملات بگڑ گئے ہیں ورنہ ایک وزیراعلیٰ کی سابق وزیراعظم سے ملاقات کوئی بڑا مسءلہ نہیں تھا، لیکن وزیراعلیٰ نے خود بانی پی ٹی آئی سے والہانہ عقیدت ظاہر کرکے خود کو ملاقات سے کوسوں دور کر لیا ہے۔ پشاور جلسہ میں جو باتیں پی ٹی آئی رہنمائوں نے کیں انہیں حفاظ مراتب کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اب آئندہ اتوار کو کوہاٹ میں جلسہ کی نوید دی گئی ہے۔ جلسے اور جلوس جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں، تاہم ان میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے اخلاقیات کے پہلو کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں سپیکر قومی اسمبلی کی باتوں سے پورا اتفاق ہے اتنے بگڑے معاملات کو درست کرنے میں کچھ نہ کچھ وقت تو درکار ہے۔ مان لیا گزشتہ انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی کی گئی جس کے نتیجہ میں موجودہ حکومت کو اقتدار میں لایا گیا تو پھر اس اقدام کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے کیا کر لیا۔ ماسوائے ایک دوسر ے کے خلاف بیانات کے عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا۔ چلیں ماضی میں جو ہوا سو ہو گیا آپ آئندہ الیکشن کی بات کریں اور ممکنہ دھاندلی کے راستے بند کرنے کے لئے جدوجہد کریں نہ کے ایک دوسرے کے خلاف اور خصوصا طاقتور حلقوں کو ہر معاملے میں ملوث کرنا اچھی بات نہیں۔ اگر ہم افواج اور اداروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں تو پھر انہیں ہر معاملے میں ملوث کرنا اچھی بات نہیں۔ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا لب و لہجہ کوئی متاثر کن نہیں تھا انہوں نے بھی بانی کا نام لئے بغیر کچھ نہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑی، لہذا ہمیں ہم سب کو اپنی روش بدلنا ہوگی تاکہ ہمارا ملک ترقی اور امن کا گہوارہ بن سکے۔ ہمیں امید ہے سپیکر قومی اسمبلی اور بیرسٹر گوہر خان کے درمیان ہونے والی بات چیت کا کوئی مثبت حل نکلے گا۔





