فیلڈ مارشل کا بھارت کو دوٹوک پیغام

اداریہ۔۔۔
فیلڈ مارشل کا بھارت کو دوٹوک پیغام
پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت میں تاریخی تبدیلی اس وقت دیکھنے کو ملی جب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ ان کا عہدہ نہ صرف ان کی عسکری صلاحیتوں کا آئینہ دار، بلکہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں بھی ایک نیا باب ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے بھارت کو اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں میں محتاط رہنے کا پیغام دیا، دراصل پاکستان کی دفاعی قوت کی نشان دہی ہے اور دشمن کو واضح طور پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی طاقت اور عزم کو آزمانے کی غلطی نہ کرے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں دفاعی حکمت عملی میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کی جانب اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے ڈیفنس فورسز ہیڈکوارٹر کا قیام ایک تاریخی قدم ہے، جو پاکستان کی مسلح افواج کو مختلف خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید مربوط اور ہم آہنگ بنانے میں مدد دے گا۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستان کی عسکری قوت کو مضبوط کرے گا، بلکہ مختلف فورسز کے درمیان ہم آہنگی کو بھی فروغ دے گا، جس سے کسی بھی خطرے کا موثر جواب دیا جاسکے گا۔ ان کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت اب ملٹی ڈومین آپریشنز کی اہمیت کو بخوبی سمجھ رہی ہے، جو زمین، فضا اور سمندر سمیت مختلف محاذوں پر ہم آہنگی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان کی مسلح افواج کی ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا، جو نہ صرف داخلی سطح پر فوج کی طاقت کو بڑھائے گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کو مزید مستحکم کرے گا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنی تقریر میں بھارت کو واضح پیغام دیا کہ وہ کسی بھی قسم کی خودفریبی میں مبتلا نہ ہو، کیونکہ اگلی بار پاکستان کا جواب اس سے کہیں زیادہ برق رفتار اور شدید ہوگا۔ یہ بیان پاکستان کے عزم کا مظہر ہے کہ کسی بھی ملک کو پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا یہ پیغام خاص طور پر بھارت کے لیے تھا، جو پاکستان کی سرحدوں پر جارحانہ رویہ اختیار کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو یہ واضح پیغام دینا کہ وہ کسی بھی جارحیت کا فوری اور سخت جواب دے گا، نہ صرف پاکستان کے دفاعی عزم کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کا ایک اثر پڑے گا۔ اس طرح کے بیانات پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھی مضبوط کرتے ہیں اور دشمن کو باور کراتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی قسم کی مسلح مداخلت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کو بھی ایک سخت پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے پاس پاکستان کے خلاف کوئی بھی تخریبی سرگرمی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ یہ پیغام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کو یہ بتانے کے لیے تھا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا فتنہ انگیزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کا تصور، جو ایک ناقابل تسخیر ریاست کا ہے، اس کی حفاظت ذمے داری ایمان سے سرشار جانبازوں اور متحد قوم کے پختہ عزم نے کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے یہ پیغام طالبان کو دیا کہ اگر وہ اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی تخریبی کارروائی میں ملوث ہوئے، تو پاکستان اس کا جواب فوراً اور سختی سے دے گا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کی تینوں مسلح افواج اپنی انفرادیت اور آپریشنل تیاریوں میں خودمختار رہیں گی، تاہم دفاعی فورسز کا ہیڈکوارٹر ان آپریشنز کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔ اس بات کا مقصد تینوں افواج کے درمیان یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، تاکہ مختلف محاذوں پر دشمن کا موثر مقابلہ کیا جاسکے۔ اس سے دفاعی حکمت عملی کی قوت میں مزید اضافہ ہوگا اور پاکستان کی طاقت میں مزید یکجہتی پیدا ہوگی۔ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں حالیہ تبدیلیوں کا مقصد ایک مضبوط اور مربوط عسکری نظام کا قیام ہے جو نہ صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک طاقتور دفاعی طاقت کے طور پر تسلیم کرائے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں ہونے والی یہ تبدیلیاں پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کو مزید مستحکم کریں گی اور دشمن کو واضح پیغام دیں گی کہ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس کے جوان ہر قیمت پر تیار ہیں۔پاکستان کا دفاعی عزم اب صرف فوج کی طاقت تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ قوم کی یکجہتی اور عزم کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ جب قوم اور فوج ایک صف میں کھڑی ہوں، تو دشمن کے لیے کسی بھی قسم کی جارحیت کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی دفاعی حکمت عملی نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مضبوط پیغام دے رہی ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کا تحفظ کسی قیمت پر نہیں چھوڑے گا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا سی ڈی ایف بننا ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس میں پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کو مزید مضبوط، ہم آہنگ اور مربوط بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کے خطاب میں بھارت کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بڑھائے گا اور کسی بھی جارحیت کا جواب دیا جائے گا۔ افغانستان کے حوالے سے بھی ایک سخت پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی سرحدوں پر کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ تینوں مسلح افواج کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی کا قیام بھی پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس طرح پاکستان اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کرے گا اور دشمنوں کو یہ بتادے گا کہ وہ کسی بھی حملے کا جواب فوراً اور سختی سے دے گا۔
شذرہ۔۔۔۔
آئی ایم ایف سے 1.3ارب ڈالر کی منظوری
آئی ایم ایف نے گزشتہ روز پاکستان کے لیے قریباً 1.3ارب ڈالر کی قسط منظور کی ہے، جو ایک مرتبہ پھر معاشی بحران کے شکار ملک کے لیے بڑی خبر ہے۔ حکومت کے مطابق یہ رقم موجودہ قرض پروگرام ( ای ایف ایف) کی تیسری قسط کے ساتھ موسمیاتی تعاون ( ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی) فنڈ کے تحت منظور کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ صرف ایک مالی امداد نہیں، بلکہ ایک بار پھر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستان کی معاشی پالیسیوں، مالیاتی نظم و ضبط اور اقتصادی اصلاحات کی سمت پر اعتماد کی علامت بھی ہے۔ البتہ یہ اعتماد وقتی ہوسکتا ہے، اگر موخر الذکر وعدوں اور پروگرامنگ شرائط کو ٹھوس انداز میں عمل میں نہ لایا گیا تو آئندہ قسطوں کا سلسلہ رک سکتا ہے۔گزشتہ برسوں میں پاکستان کی معاشی صورت حال کافی نازک رہی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم، برآمدات متاثر، غیر ملکی سرمایہ کاری رکاوٹ کا شکار اور کرنسی کی قدر کم ہوتی رہی۔ ایسے میں IMFکی موجودہ قسط ملنے سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کُچھ حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی، زرمبادلہ ذخائر پر دبائو کم ہوگا اور حکومت کو اپنی ترسیلاتِ زر اور بیرونی قرضوں کے بوجھ سے عبور حاصل کرنے کی تھوڑی مہلت مل جائے گی۔ ساتھ ہی، اگر حکومت نے ان فنڈز کو اصلاحات اور ڈیفالٹ سے بچائو کی سمت میں استعمال کیا، تو معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ صرف نقدی انٹیک سے مسائل ختم نہیں ہوتے۔ بہت سے مبصرین اِسے ایک وقتی حل قرار دے رہے ہیں، جس سے اگر دیرپا پالیسیاں نہ بنیں تو مالیاتی دبائو دوبارہ اجاگر ہوسکتا ہے۔ اگر نیا قرض بڑھتا چلا جائے اور معیشتی پیداوار نہ بڑھے، تو مستقبل میں قرضوں کی ادائیگی اور سود کی مدیں بھاری بوجھ بن سکتی ہیں۔ IMFنے بجلی، پانی، ٹیکس ریونیو، توانائی اور مالیاتی نظام کی اصلاحات پر زور دیا ہے۔ اگر یہ اصلاحات سطحی رہ گئیں، تو قرضہ لینے کا مقصد ضائع ہوجائے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت صرف قرض لینے پر خوش نہ ہو بلکہ عوامی اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر اصلاحات کو نافذ کرے۔ بجلی اور توانائی کے ضیاع کو کم کرے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنائے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار بنائے۔ عوام کا فرض ہے کہ بے جا مطالبات، کرپشن اور غیر شفاف نظام کے خلاف آواز اٹھائیں ، نجی شعبے کو چاہیے کہ سرمایہ کاری اور پیداوار بڑھانے پر توجہ دے۔ اگر یہ سب مل کر کرلیا گیا تو پاکستان کی معیشت ایک حقیقی، دیرپا، مستحکم راستے پر گامزن ہوجائے گی۔





