Column

جنگ مئی کا فاتح پاکستان

جنگ مئی کا فاتح پاکستان
معرکہ حق میں پاکستان نے بھارت کو بُری طرح دھول چٹائی۔ اُس کے سات جدید جنگی طیارے اور بے شمار ڈرونز مار گرائے۔ اُس کی اہم تنصیبات کو نیست و نابود کر ڈالا۔ دُنیا نے پاکستان کی عسکری برتری کو تسلیم کیا اور اس جنگ میں پاکستان کو فاتح ٹھہرایا، گزشتہ روز امریکی کانگریس نے بھی اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے مودی سرکار کو آئینہ دِکھا دیا ہے۔ امریکی کانگریس کی حالیہ رپورٹ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025ء میں ہونے والی جھڑپوں پر روشنی ڈالی ہے اور ان جھڑپوں میں پاکستان کی فوجی برتری کو تسلیم کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس دوران چین نے اپنے دفاعی نظام کو آزمایا اور پاکستان کے ساتھ عسکری تعاون کو مزید فروغ دیا۔ اس کے علاوہ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت حال پر روشنی ڈالی اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ انہوں نے بڑی جنگوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ تمام واقعات نہ صرف عالمی سیاست میں اثرانداز ہورہے ہیں، بلکہ جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کیا اور اس کے لیے مختلف عسکری نظاموں کی فراہمی کی۔ چینی ہتھیاروں کی پاکستان میں آزمائش اور ان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں جنوبی ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور اثر کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکستان کا بھارتی طیاروں کو چینی ہتھیاروں کے ذریعے نشانہ بنانا ایک اہم اشارہ ہے کہ چین کے جدید فوجی نظام پاکستان کے لیے کتنے اہم ہوگئے ہیں۔ چینی اسلحہ، خاص طور پر HQ-9میزائل ڈیفنس سسٹم، PL-15 ایئر ٹو ایئر میزائل اور J-10لڑاکا طیارے کی آزمائش نے چین کے لیے ایک بڑا فوجی تجربہ فراہم کیا اور اس نے ثابت کیا کہ چین اپنے جدید اسلحے کو عملی میدان میں استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے جون 2025ء میں پاکستان کو جدید لڑاکا طیارے J-35، KJ-500ایئر کرافٹ اور بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹمز فراہم کرنے کی منظوری دی ہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ اپنی دفاعی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے۔ چین کی اس حمایت کی پاکستان کے لیے اہمیت اس لیے ہے کیونکہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں اور چین کی دفاعی مدد پاکستان کی فوجی طاقت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ پاکستان نے 2025۔2026کے دفاعی بجٹ میں 20فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے، جس سے دفاعی اخراجات 9ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ اضافہ پاکستان کی دفاعی ترقی کی جانب ایک واضح قدم ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی فوجی صلاحیتوں میں مزید بہتری لانے کے لیے تیار ہے۔ دفاعی بجٹ میں اس اضافے کا مقصد صرف بھارت کے ساتھ ہونے والے ممکنہ فوجی تنازع سے نمٹنا نہیں ہے، بلکہ چین کی مدد سے پاکستان اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکے۔ بھارت کے لیے یہ صورت حال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے جب چین کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعلقات کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومتی پالیسی اور اس کا چین کے ساتھ سرحدی تنازع پہلے ہی کشیدہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی چینی ہتھیاروں کے ساتھ کارکردگی نے بھارت کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بھارت کا فرانسیسی رافیل طیارہ، جو جدید ترین طیاروں میں شمار ہوتا ہے، پاکستان کے چینی ہتھیاروں کے سامنے کمزور ثابت ہوا اور یہ چین کے اسلحے کی فروخت کے لیے ایک موثر دلیل بن چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی فوجی پوزیشن کمزور پڑرہی ہے اور چین کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعلقات بھارت کے لیے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات نے بھی خاصی توجہ حاصل کی ہے کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو روکا تھا۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کئی بڑی جنگوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا، جنوبی ایشیا میں امریکی مداخلت کی نوعیت کو اجاگر کرتا ہے۔ امریکا نے ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے تجارت کی بنیاد پر جنگیں رکوائیں، جو ایک دلچسپ بیان ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی تعلقات کو اہمیت دے رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا اس پوزیشن میں کب تک رہے گا، خاص طور پر جب چین اور پاکستان کے دفاعی تعلقات بڑھتے جائیں گے اور بھارت اس میں چیلنج کی صورت اختیار کرے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگیاں، چین کے ساتھ پاکستان کی عسکری تعلقات میں مزید اضافہ اور امریکا کا اس خطے میں مداخلت کا کردار جنوبی ایشیا کی سیاسی اور فوجی صورت حال کو پیچیدہ بنارہے ہیں۔ یہ خطہ نہ صرف عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم مرکز بن چکا، بلکہ عالمی سیاست میں توازن کے لیے بھی ایک اہم جنگی محاذ بننے جارہا ہے۔ اس تمام صورت حال میں ایک بات واضح ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کی ضرورت ہے اور یہ صرف بات چیت، اعتماد کی فضا اور عالمی طاقتوں کے کردار کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ بھارت پر پاکستان نے اپنی عسکری برتری ثابت کی۔ دُنیا اس بات کو تسلیم کر رہی ہے، لیکن بھارت ’’ میں نہ مانوں’’ کی رَٹ پر اڑا ہوا ہے۔ اسی لیے حالیہ دنوں میں اُس کی جانب سے بہت سی گیدڑ بھبھکیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ بھارت کو خطے اور اپنے ملک کے عوام کی بہتری کے لیے اپنی جنونی روش کو ترک کرنا ہوگا۔ یہی اس کے حق میں بہتر ہے۔
پاک، چین اسٹرٹیجک تعلقات
مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
پاکستان اور چین کے تعلقات کے حوالے سے تازہ خبر نہایت اہمیت کی حامل ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب خطے میں جیو اسٹرٹیجک تبدیلیاں تیزی سے وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان توانائی اور معدنیات کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی کوششیں نہ صرف باہمی اعتماد کا مظہر بلکہ اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ پاکستان اپنی معاشی سمت کو درست کرنے کے لیے حکمتِ عملی کے تحت نئے مواقع تلاش کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر پٹرولیم علی پرویز ملک اور چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ کی ملاقات پاکستان کی پالیسی سمت اور چین کے مضبوط اسٹرٹیجک کردار کی واضح جھلک پیش کرتی ہے۔چین اور پاکستان کے تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں ۔ اس ملاقات میں جو عزم اور مشترکہ وژن سامنے آیا، اس سے یہ بات واضح ہے کہ دونوں ممالک مستقبل میں بھی خطے میں اقتصادی استحکام اور مشترکہ ترقی کے منصوبوں کو ترجیح دیں گے۔ توانائی اور معدنیات کے شعبے وہ ستون ہیں جن پر پاکستان کی طویل المدتی اقتصادی ترقی کا دارومدار ہے۔ دنیا بھر میں معدنی وسائل کے بغیر صنعتی ترقی کا تصور ممکن نہیںجبکہ توانائی کا شعبہ کسی بھی ملک کے معاشی انجن کو چلانے میں بنیادی قوت رکھتا ہے۔پاکستان میں معدنیات کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہمیشہ رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ یہی وہ خلا ہے جسے چین جیسے قابلِ اعتماد شراکت دار بھر سکتے ہیں، جن کی کمپنیاں پہلے ہی پاکستان میں نمایاں منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ سیندک سے لے کر ایم سی سی اور سی این او سی تک، چینی کمپنیوں کا کردار پاکستان کے معدنیاتی اور پٹرولیم شعبوں میں مضبوط بنیاد فراہم کر چکا ہے۔ وفاقی وزیر کی جانب سے چین کو پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم 2026میں شرکت کی دعوت نہ صرف ایک اقتصادی حکمتِ عملی ہے بلکہ یہ ایک اسٹرٹیجک قدم بھی ہے۔ اس فورم کے ذریعے پاکستان عالمی سرمایہ کاروں کو اپنے معدنی وسائل کی جانب متوجہ کر سکتا جبکہ چین کی شمولیت اس فورم کو عالمی سطح پر مزید معتبر بنائے گی۔ چین کے سفیر کا اس دعوت کا خیرمقدم کرنا ظاہر کرتا ہے کہ چین پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات کو سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑا رہنے کے عزم پر قائم ہے۔ ملکی معیشت میں استحکام کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں، اور چین کا تعاون ان اصلاحات کو عملی شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ خاص طور پر توانائی اور معدنیات کے شعبے میں مشترکہ منصوبے پاکستان کو معاشی خودکفالت کے قریب لے جا سکتے ہیں۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان اور چین کا یہ عزم کہ اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنایا جائے اور سرمایہ کاری کے نئے راستے کھولے جائیں، پاکستان کی معیشت کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے۔ اگر پاکستان اور چین اسی تسلسل سے آگے بڑھتے رہے تو توانائی اور معدنیات کے شعبوں میں بڑھتا ہوا تعاون نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا بلکہ خطے میں اقتصادی استحکام اور ترقی کے نئے دور کا آغاز بھی کرے گا۔

جواب دیں

Back to top button