
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسسمنٹ پر پاکستان سے متعلق ٹیکنیکل اسسٹنس رپورٹ میں عالمی ادارے نے کہا کہ ’پاکستان میں مختلف اشاریے وقت کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف کمزور کنٹرول کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں سرکاری اخراجات کی مؤثریت، محصولات کی وصولی، اور قانونی نظام پر اعتماد متاثر ہوتا ہے۔‘
آئی ایم کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ حکومت کی تمام سطحوں پر بدعنوانی کے خدشات موجود ہیں لیکن سب سے زیادہ معاشی نقصان دہ صورتیں اُن مراعات یافتہ اداروں سے جڑی ہیں جو اہم معاشی شعبوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جن میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جو ریاست کی ملکیت ہیں یا اس سے منسلک ہیں۔‘
ادارے کے مطابق ’یہ صورتحال اس تاثر سے مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ انسدادِ بدعنوانی کا طریقہ کار مستقل مزاجی اور غیر جانبداری سے خالی رہا ہے، جس کے باعث کرپشن کے خلاف کام کرنے کرنے والے اداروں پر عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کو کرپشن سے دوچار خطرات کے عوامل پر بات کرتے ہوئے ادارے نے مختلف خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں بجٹ سازی،مالی معلومات کی رپورٹنگ میں خامیاں، پبلک سیکٹر میں مالیاتی و غیر مالیاتی وسائل کی مینجمنٹ میں کمزوریاں شامل ہیں۔
اس کے ساتھ سرکاری ملکیتی اداروں کے انتظام و نگرانی میں غیرضروری طور پر پیچیدہ اور غیر شفاف ٹیکس نظام بی شامل ہیں جس میں ٹیکس اور کسٹم حکام کم صلاحیت، انتظام، اور نگرانی کافی نہیں ہیں۔







