ججز استعفیٰ کیوں دے رہے ہیں ؟

ججز استعفیٰ کیوں دے رہے ہیں ؟
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کا آئینی و عدالتی ڈھانچہ ہمیشہ سے ایک مسلسل ارتقا کا حصہ رہا ہے۔ پارلیمان کی مختلف ترامیم نے نہ صرف ریاستی اداروں کے اختیارات کے توازن کو متاثر کیا بلکہ عدلیہ کی ساخت اور کردار پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔ اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی 27ویں آئینی ترمیم ہے، جس نے اعلیٰ عدلیہ کے اندر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے اور چند اہم ججز اور دیگر شخصیات کے استعفوں کا سبب بنی۔
پاکستان کا آئین 1973ء میں تشکیل پایا، جس میں عدلیہ کی آزادی اور ریاست کے اداروں کی علیحدگی بنیادی اصول قرار دئیے گئے۔ بعد ازاں مختلف حکومتوں نے آئین میں ترامیم کیں جن میں عدلیہ کے کردار، ججز کی تقرری اور اختیارات پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ 18ویں اور 19ویں ترمیم نے عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ایک نئے توازن کی بنیاد رکھی، مگر 27ویں آئینی ترمیم اس توازن کو ایک نئی سمت دیتی نظر آئی۔
ترمیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ اور مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کے ڈھانچے میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ ان تبدیلیوں نے ججز کے مستقبل، تعیناتیوں، تبادلوں اور اختیارات پر ایسے سوالات کھڑے کر دئیے جنہوں نے عدلیہ میں بے چینی پیدا کی۔ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس شمس محمود مرزا کا استعفیٰ اور دیگر ججز نے عدالت سے علیحدگی اختیار کی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا وہ پہلے ہائیکورٹ جج ہیں جنہوں نے 27ویں ترمیم کے بعد اپنے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کی۔ ان کی تقرری 2014ء میں ایڈیشنل جج کے طور پر ہوئی اور وہ 2028ء میں ریٹائر ہونے والے تھے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق ان کے استعفے میں واضح طور پر لکھا گیا کہ وہ آئینی ترمیم کے بعد اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتے۔ ترمیم کے بعد تبادلے کے امکان نے بھی ان کے فیصلے کو تقویت دی۔ ان کا استعفیٰ صدر مملکت کو ارسال کر دیا گیا ہے، جو آئینی کارروائی کے بعد نافذ العمل ہوگا۔
یہ استعفیٰ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ عدلیہ کے اندر سے آنے والا پہلا مضبوط اشارہ ہے کہ جج اس ترمیم کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر ججز کے استعفے بھی سامنے آگئے ہیں۔ 27ویں ترمیم کے منظور ہوتے ہی سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے عہدوں سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ دونوں جج عدلیہ کے آزادانہ کردار اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے معروف تھے۔
اسی دوران جسٹس مسرت ہلالی نے وفاقی آئینی عدالت میں شمولیت سے معذرت کر لی، جس سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوا کہ عدلیہ کے اندر اس ترمیم کے بارے میں تشویش موجود ہے۔
دوسری طرف جسٹس امین الدین کو وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے حوالے سے واضح کر دیا گیا کہ وہ اپنی مدت مکمل کریں گے۔ ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تقرری کا معیار بھی بدل گیا اور سینیارٹی کی نئی تشریح سامنے آئی۔
ترمیم سے پیدا ہونے والے سوالات نے کھلبلی مچا دی ہے۔ یہ ترمیم کئی بنیادی سوالات کو جنم دیتی ہے کہ کیا اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے؟
کیا ججز کا تبادلہ یا نئی عدالت کا قیام عدالتی ڈھانچے کو کمزور کرتا ہے؟
کیا چیف جسٹس کی تقرری کے نئے اصول آئینی اداروں میں اضطراب پیدا کریں گے؟
یہ سوالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عدلیہ اور پارلیمان کو اس مسئلے پر کھلے مکالمے کی ضرورت ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا ایک ساتھ استعفیٰ دینا معمولی بات نہیں۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں چند مواقع پر ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں، مگر اس بار معاملہ ایک آئینی ترمیم کے ردعمل میں سامنے آیا ہے۔
ان استعفوں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ ججز آئینی ڈھانچے میں ممکنہ مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔





