Column

کیا ڈھاکہ پھر پاکستان بنے گا؟

کیا ڈھاکہ پھر پاکستان بنے گا؟
تحریر : مشتاق الرحمان زاہد
کیا ڈھاکہ پھر پاکستان بنے گا؟یہ سوال آج کل زبان زدعام ہے
دنیا بھی عجیب ہے۔ خوابوں کی آماجگاہ جہاں شب و روز سہانے خواب دیکھے جاتے ہیں ۔ ایسے میں آج کل سب کو یہ خواب نظر آرہاہے کہ ’’ کیا ڈھاکہ پھر پاکستان بننے جارہا ہے؟‘‘، جس سے دل کو سرور بھی ملتاہے اور راحت بھی اس خواب کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں
مشرقی پاکستان کو جدا ہوئے 55برس ہوچکے ہیں نقشے بدل چکے، حکمران بدل چکے، نسلیں بدل چکی ہیں، مگر دونوں ملکوں کے عوام کی آپس میں محبتیں و الفتیں نہیں بدلیں وہ بدستور موجود ہیں
1971ء کا واقعہ کوئی معمولی زخم نہیں تھا، ڈھاکہ کبھی پاکستان کا دل تھا، مشرقی بازو تھا، ثقافتی طاقت بھی اور آبادی کا بڑا حصہ بھی۔
جس ملک کی بنیاد دو قوموں کے نظریے پر رکھی گئی ہو، اس کے بطن سے الگ ملک کا جنم لینا محض ایک سیاسی حادثہ نہیں بلکہ پوری تاریخ پر لرزہ طاری کرنے والا لمحہ تھا۔
آج بھی جب لوگ ڈھاکہ کا نام یاد کرتے ہیں تو صرف جغرافیہ نہیں بلکہ ، جدائی کا درد اور ایک ادھورے خواب کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
خیال کیا جاتاہے کہ ریاستیں عوامی محبتوں سے نہیں بلکہ مضبوط معیشت سے چلتی ہیں اگرچہ کبھی کبھار عالمی سیاست کے تابع بھی ہوتی ہیں۔
ڈھاکہ آج ایک خودمختاری کی مثال رکھتا ہے، مضبوط معیشت اور عالمی برادری میں ایک نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے اور دنیا بھی اسے جنوب ایشیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت سمجھتی ہے، اس کے لیے کسی ملک میں ضم ہوجانا بظاہر ممکن نہیں اور نہ ہی عالمی دنیا اس بات کو آسانی سے تسلیم کریگی۔
لیکن چونکہ قومیں باہمی محبتوں و الفتوں سے بنتی ہیں اس تناظر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کا تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط اور پائیدار رشتہ ہے جس کی جڑیں مذہب میں ہیں۔
نقشے بدلتے رہتے ہیں، لیکن دل کا نقشہ نہیں بدلتا۔ اسی لیے آج بھی جب پاکستانی عوام بنگلہ دیش کا ذکر کرتے ہیں تو محبت محسوس ہوتی ہے، نفرت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد اگرچہ ریاستی تعلقات اکثر خراب رہے مگر عوامی جذبات میں کوئی کمی نہیں آئی خاص طورپر شیخ حسینہ کی حکومت کا تخت گرنے کے بعد بنگلہ دیشی عوام کے دلوں میں پاکستان کی محبت مزید بڑھ گئی ہے، وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو یک جان دو قالب سمجھتے ہیں۔ مزید برآں ریاستی سطح پر دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے اور ایک دوسرے کے قریب ہوگئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کا آپس میں محبت کا جذبہ اب حکومتی سطح پر بھی آشکار ہونے لگا ہے، اس ضمن میں جب یہ کالم لکھا جارہاہے پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی و سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ سینئر سیاستدان مولانا فضل الرحمان ڈھاکہ کے دورے پر ہیں جو معنی خیز سمجھا جارہاہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اسے دونوں ریاستوں کی قربت کا ذریعہ بھی جانتے ہیں، اگرچہ ان کے دورے پر جانے سے قبل ان کے پاسپورٹ پر سارک سٹیکر بھی کافی تاخیر کا شکار ہوا مگر پھر بھی اسے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جارہاہے۔ ڈھاکہ سمیت دیگر شہروں میں ان کے درجنوں پروگرام شیڈول ہیں اور عوامی سطح پر ان کی بہت زیادہ پذیرائی ہورہی ہے۔ ہفتہ کو ڈھاکہ میں ختم نبوت کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان سے خیر سگالی کا پیغام لیکر آئے ہیں، دو بھائیوں میں گھر میں جائیداد کی تقسیم سے ان کا بھائی چارہ ختم نہیں ہوتا، اگر آپ ہماری طرف پیدل چل کر آئیں گے توہم آپ کی طرف دوڑ کر آئینگے۔ لگ یوں رہاہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ریاستی سطح پر جمی ہوئی برف پگلنے والی ہے، جو دونوں ممالک کے عظیم تر مفاد میں ہے ۔
چونکہ خطے میں نئی سیاسی صف بندی ہورہی ہے، بھارت، چین اور امریکہ کی پالیسیوں نے جنوبی ایشیا کو نئے سیاسی براعظم میں بدل دیا ہے۔ جب بڑی طاقتیں اپنے پیسے، مفادات اور عسکری اثر و رسوخ کے لیے نئی راہیں کھولتی ہیں تو چھوٹے ممالک کے تعلقات میں بھی تبدیلیوں کے آثار نمودار ہوتے ہیں پاکستان اور بنگلہ دیش اسی نئی صف بندی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہران، دوحہ، بیجنگ اور انقرہ جیسے مراکز اس تعلق کو نئے زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ویسے بھی اسلامی دنیا میں یہ بحث ہمیشہ چلتی رہی ہے کہ مسلم ممالک کو قریب آنا چاہیے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اس نظریے کے قدرتی اتحادی ہیں اور مذہبی نکتہ اس کا بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان سمیت مذہبی قائدین کے حالیہ دورہ ڈھاکہ کو اسی تناظر میں دیکھا جارہاہے۔ دنیا میں کچھ بھی بعید نہیں۔
مشتاق الرحمان زاہد

جواب دیں

Back to top button