راستہ

راستہ
محمد مبشر انوار
انسان کو زمین پر اشرف المخلوقات بنا کر کرہ ارض پر اتارا گیا تھا، خیر و شر کی پہچان و تفریق بتا دی گئی تھی اور اختیار انسان کو دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو خیر پر چلے، چاہے تو شر کا مسافر بن جائے، البتہ روز آخر اس کی سزا و جزا، اس کے اپنے اختیار پر ہو گی۔ تاہم فطری طور پر، انسانی خمیر میں زیادہ سے زیادہ طاقت و اختیار و غلبے کا عنصر رکھ کر، اس جذبے کے خلاف، نفس کے خلاف جدوجہد کو نفس کے خلاف جہاد عظیم کا نام دے دیا اور اسی جہاد کو بنیادی فرض بھی قرار دے دیا کہ اگر انسان اپنے نفس کے خلاف کامیاب ہو گیا تو دین و دنیا دونوں محاذوں پر اسے کامیابی کی نوید سنا دی۔ بظاہر انتہائی آسان نظر آنے والی یہ مشق، انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ طاقت و اختیار و غلبے کی ہوس، انسان کو اپنے بنیادی فرض سے ہمیشہ غافل کرتی رہی ہے اور خیر و شر کی اس جنگ میں انسانوں کی اکثریت شر کی پیروکار دکھائی دیتی ہے۔ دنیا میں حقوق و فرائض کے حوالے سے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان فرائض کی نسبت حقوق کے متعلق زیادہ متفکر ہے حالانکہ اگر انسان اپنے فرائض کی ادائیگی صحیح طریقے سے انجام دے تو نہ صرف اس کے اپنے بلکہ دوسروں کے حقوق کا تحفظ بھی بخوبی ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہوس و حرص کی اس دنیا میں بالعموم یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ انسان اپنے فرائض سے غفلت اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ مارنے سے کہیں بھی نہیں چوکتا جس سے معاشرے میں عدم استحکام و عدم توازن واضح نظر آتا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے کہ ریاستی اداروں کے مابین، اختیارات کی تقسیم و دائرہ کار کے حوالے سے، ھل من مزید کی توقع و کوشش، ریاستی اداروں میں عدم توازن تو پیدا کرتا ہی ہے لیکن اس چھینا جھپٹی میں شہریوں کا جو نقصان ہوتا ہے، جو حقوق سلب ہوتے ہیں، جو ناجائز بوجھ ان پر ڈالا جاتا ہے، اس کی کسی بھی بااختیار کو نہ پرواہ ہے اور نہ ہی کوئی فکر ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں چھینا جھپٹی کا یہ ماحول ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اشرافیہ کے درمیان باہمی چپقلش اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ طاقتوروں کا کاسہ اقتدار ہر گزرتے دن کے ساتھ، تمام اختیارات سمیٹنے کے باوجود سیر نہیں ہورہا گو کہ اس میں ذمہ داران کی نااہلی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے وگرنہ یہ ممکن نہیں کہ طاقتور اتنی جرات کا مظاہرہ کر پاتے۔
گزشتہ چند برسوں میں اختیارات کی ہوس میں ایسی ایسی آئینی ترامیم وطن عزیز میں دیکھنے کو ملی ہیں کہ الامان الحفیظ، جن کا تصور کسی بھی صورت نہ تو کسی ریاست یا مہذب معاشرے میں کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ وزیراعظم کو ان کی اس نااہلی پر دنیا ’’ شو شائن بوائے‘‘ کے نام سے پکارتی نظر آتی ہے، مگر مجال ہے کہ کسی بھی لمحے ان کی طرف سے کوئی مزاحمت دکھائی دیتی ہو، اس کے برعکس انہیں جو بھی احکامات ملتے ہیں وہ آمنا و صدقنا کہتے ہوئے اس پر عمل درآمد میں جت جاتے ہیں، خواہ اس میں ان کے اپنے اختیارات تک، کوئی فرد واحد یا محکمہ، ان سے حاصل کر لے، انہیں کوئی اعتراض نہیں، البتہ انہیں اقتدار کے سنگھاسن سے نہ اتارا جائے، ان کے لئے یہی کافی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم میں جو کچھ ہوا، جس طرح آئین کی بنیادی روح پر کچوکے لگے، اسے تار تار کیا گیا، جمہوری اقدار کی بے حرمتی کی گئی، مخالفین کی نشستوں پر ڈاکہ مارا گیا، عدلیہ کی آزادی کو پابہ زنجیر کیا گیا، ابھی اس کے زخم ہی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ 27ویں ترمیم کا نیا ڈول ڈالا جا چکا ہے۔ مقام صد افسوس کہ اس ترمیم میں جو نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، اس قانون سازی کے بعد، ریاست کو’’ بنانا ریپبلک‘‘ کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے، میری سمجھ سے باہر ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ ریاست دنیا کی نمبر ایک ریاست تصور ہو گی تو دوسری طرف اس امر کا بھی شدید امکان ہے کہ مسلمہ ریاستی قوانین و اصول و ضوابط کے خلاف قوانین بنانے میں بھی اس ریاست کا نمبر پہلا ہو جائے گا کہ لمحہ موجود میں ایسی کوئی ریاست دکھائی نہیں دیتی جو جیورس پروڈنس کے اصولوں کے خلاف عمل پیرا ہو۔ ایسے ہائبرڈ نظام کی کوئی شکل کہیں دکھائی نہیں دیتی، جو صورتحال اس وقت پاکستان میں نظر آ رہی ہے یا جو مجوزہ آئینی ترمیم کے بعد متشکل ہونے جا رہی ہے۔ ساری دنیا میں عدلیہ کی آزادی، نہ صرف تحفظ آئین بلکہ عوامی حقوق کی نگہبان تصور ہوتی ہے، ججز کی تعیناتیوں کو سیاسی مداخلت سے باہر رکھا جاتا ہے، عدالتی انتظامی اختیارات تک ریاستی انتظامی رکن کے تحت کرکے، عدلیہ کو حکومت کا ماتحت ’’ محکمہ‘‘ بنایا جا رہا ہے تا کہ عدلیہ فیصلوں میں آزادانہ روش اختیار نہ کر سکے۔ عدلیہ کے اختیارات میں عدم توازن پیدا کیا جا چکا ہے اور افسوس تو اس امر پر ہے کہ عدلیہ کے جج صاحبان اس واردات پر مہر بہ لب ہیں، بلکہ ان کا انداز فکر ایسا ہے اور مقننہ کے اختیار پر ایسے گنگ ہیں کہ جیسے قانون سازی سو فیصد آئین کے بنیادی ڈھانچے کے اندر ہو رہی ہے اور کوئی بھی ترمیم ماورائے آئین ہے ہی نہیں۔ اس حرکت سے بصد احترام اختلاف رائے کرنے کی جسارت ضرور کرونگا کہ جس آئین میں ایسی شرمناک ترامیم کی جا رہی ہیں، وہ آئین ایسی ترامیم کو’’ ماورائے آئین‘‘ قرار دینے کی طاقت ان ججز کو عطا کرتا ہے بشرطیکہ ججز اس واردات کا کماحقہ احساس، اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر کر سکیں، وگرنہ طوق غلامی عدلیہ کے گلے میں پہنایا جا چکا ہے اور نجانے کب تک یہ طوق گلے میں لٹکا رہے گا۔ یہی آئین ہے جو عدلیہ کو ریاست کا تیسرا اہم ادارہ تسلیم کرتا ہے، اس کی آزادی کا علمبردار ہے اور اس کی طاقت کا تعین کرتا ہے جسے کوئی بھی آئینی ترمیم تبدیل نہیں کر سکتی، مگر موجودہ مقننہ دھڑلے سے ایسی ترامیم کر رہی ہے اور ججز ان ترامیم کو بغیر حیل و حجت و دلیل کے آئین کا حصہ تسلیم کر کے، اپنے اختیارات حکومت کے سپرد کر رہے ہیں، جس کو آنے والا مورخ انتہائی شرمناک انداز میں ضبط تحریر میں لائے گا جس میں ان ججز کی اہلیت پر یقینی طور پر سوالیہ نشان ہوگا۔
بطور اسلامی جمہوریہ پاکستان، ہمارے قوانین قرآن و سنت سے مشروط ہیں، جس میں حاکمیت اعلیٰ کا تصور اللہ رب العزت کی ذات باری ہے، مگر جو قوانین بن رہے ہیں ان میں اسلامی رمق کہیں دکھائی نہیں دیتی کہ اسلامی قوانین میں کسی بدعنوان کی سہولت یا آسانی کے لئے کوئی رعایت نہیں، بلکہ اس کے لئے سخت سزا کا تصور ہے کہ ایسے بدعنوانوں سے معاشرہ میں عدم توازن کا راستہ کھلتا ہے۔ نجانے یہ کیسے نابغہ روزگار قسم کے قانون ساز ہیں، جن کے نزدیک لوٹ مار کی ایک خاص حد کے لئے ایک مخصوص محکمہ کا دائرہ کار ہی نہیں، جبکہ اس سے نیچے کی لوٹ مار کے لئے جو محکمے ہیں، ان پر یہ بزرجمہر، ہزارپا کی طرح قابض ہیں اور یہ محکمے ان کے ایسے تابع فرمان ہیں کہ ان کے اشارہ ابرو کے بغیر کوئی کارروائی عمل میں ہی نہیں لا سکتے، جس کے مظاہر ہم آئے روز دیکھتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی صاحب اقتدار کے لئے استثناء کی روایت، دوران اقتدار، فرائض کی نیک نیتی کے ساتھ انجام دہی میں کوئی جرم سر زد ہو جائے یا کسی قسم کا نقصان سرزد ہو جائے، تو استثناء کا حق دیا جاتا ہے لیکن اس کے لئے بنیادی شرط نیک نیتی ہے ۔ اس استثناء کی حد صرف اور صرف دوران اقتدار اور نیک نیتی سے مشروط ہے، اگر کسی حکمران کا دامن ایسے کسی دھبے سے اٹا نہیں پڑا، تو اسے تاحیات ایسی سہولت کی ضرورت کیونکر محسوس ہو سکتی ہے؟ چہ جائیکہ مجوزہ آئینی ترمیم میں نہ صرف صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کے لئے بھی تاحیات استثناء کا تجویز کیا جانا، اخلاقی گراوٹ کے علاوہ اور کیا ہے؟ گو کہ وزیراعظم کے حوالے سے یہ سہولت ترمیم سے اس لئے حذف کی گئی کہ شنید ہے اس کا فوری فائدہ عمران خان کو ملتا جو بہرطور ناقابل قبول ہے، جبکہ صدر و آرمی چیف کے حوالے سے یہ سہولت ترمیم میں تادم تحریر موجود ہے۔ ایسی شخصیات کا دامن اگر کسی داغ دھبے یا چھینٹے سے صاف ہے تو ایسی سہولت کی انہیں کیا ضرورت ہے اور اگر دامن داغدار ہے تو اسے داغدار ہونے سے محفوظ رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ فرائض کی انجام دہی میں اگر دامن ضرورت سے زیادہ داغدار ہو تو ایسے قوانین کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے، لیکن اگر ابتداء ہی میں اس امر کا احساس کر لیا جائے کہ زندگی گزارنے کے لئے کس راستے کا انتخاب کیا جا رہا ہے تو اقتدار یا ’’ اختیار‘‘ سے الگ ہونے پر کسی استثنائی حیثیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور عوامی عہدے رکھنے والے جرات و بہادری و اعتماد سے قانون کا سامنا کرتے ہیں۔





