Columnمحمد مبشر انوار

مواقع

مواقع
محمد مبشر انوار
ریاستوں کی مضبوطی بنیادی طور پر دو عوامل منحصر ہوتی ہے جبکہ دیگر عوامل اضافی یا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے یا کم ہوتے رہتے ہیں، ان دو بنیادی عوامل یا عناصر میں سب سے پہلا عنصر معیشت کی مضبوطی جبکہ دوسرا عنصر دفاعی و جارحانہ صلاحیت ہے۔ تیسرا اہم ترین عنصر بلاشک شبہ سفارتی پالیسی ہے جو بنیادی طور ان دو عناصر کی مرہون منت ہے کہ جتنے زیادہ پہلے دو عناصر مضبوط و مستحکم ہوں گے ،سفارتی پالیسی کا کامیابی بھی اس سے مشروط ہو گی ،مستثنیات کی بات الگ ہے کہ جہاں کوئی ریاست پہلے دو بنیادی عناصر کی عدم موجودگی میں کامیاب سفارت کاری کے باعث اپنی بقاء و خوشحالی کو یقینی بنا سکے،یا وقت کے طاقتوروں کی جارحیت سے خود کو بچا سکے۔ گزشتہ صدی کے تقریبا وسط تک صحرائے عرب کا معیشت و دفاع کی صورتحال اتنی متاثر کن یا عالمی معاملات میں اثرانداز ہونے کی حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن نئی ریاستوں کے معرض وجود میں آنے کے بعد معاملات میں تبدیلیاں دیکھنے کو ملی اور بتدریج ریگزار عرب میں معدنی ذخائر کی دولت نے دیکھتے ہی دیکھتے عرب معیشت کو دن بدن مضبوط سے مضبوط تر کرنا شروع کردیا۔ گو کہ یہ معاشی تبدیلی راتوں رات وقوع پذیر نہیں ہوئی لیکن آج اس کے اثرات ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے یہ تبدیلی راتوں رات اس خطہ عرب میں وقوع پذیر ہوئی ہو اور یہاں کا رہن سہن، طرز زندگی اور بود و باش تقریبا بدل چکی ہے اور خوشحالی ذرے ذرے سے چمکتی دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم عسکری حوالے سے یہاں ہنوز ترقی کی اشد ضرورت ہے اور ایسا نہیں کہ عرب شہریوں میں مملکت کی خدمت کا جذبہ نہیں یا ان کے پاس وسائل کی کمی ہے یا ان کی تربیت میں کوئی کمی ہے کہ انہیں ایک طرف امریکی فوجی تربیت دے رہے ہیں تو دوسری طرف برادر اسلامی ملک پاکستانی فوجی بھی انہیں تربیت دے رہے ہیں لیکن کمی ہے تو اتنی کہ عرب فوج کے ہاتھ امریکی ابتداء میں ہی باندھ چکے ہیں،جس کا اظہار ٹرمپ اپنے گزشتہ عہدہ صدارت میں بھی کر چکے ہیں۔ امریکیوں نے عرب ممالک کو اپنے دفاع میں خودکفیل ہونے ہی نہیں دیا بلکہ انہیں اپنے دفاع کے لئے شروع سے ہی اپنا محتاج بنا کر رکھا ہے گو کہ جدید ترین اسلحے کی ذخائر ان متمول عرب ریاستوں کو ضرور فراہم کئے ہیں مگر ان کے استعمال کی اجازت تاحال ان ریاستوں کو نہیں ہے کہ آج بھی امریکی فوجی ان ریاستوں میں بیٹھے ان ذخائر کو نہ صرف کنٹرول اور استعمال کر رہے ہیں بلکہ ان کے بھاری اخراجات بھی ان عرب ریاستوں سے وصول کررہے ہیں۔ریاست امریکہ کی اس پالیسی کے پیچھے بظاہر دو اصول واضح دکھائی دیتے ہیں کہ اولا کسی بھی صورت ان عرب ریاستوں کو جدید اسلحے تک رسائی نہ دو بلکہ ان کی ضرورت سے کھیلتے ہوئے ان کے وسائل ہڑپ کرو،ان سے بھاری معاوضے وصول کرواور دوسرا پس پردہ وہ خوف ہے،جو غیر مسلموں آج تک سکون سے نہیں بیٹھنے دے رہا اور حیلے بہانے،مسلم ممالک اور ان کی عسکری صلاحیت کو بیدار ہونے سے روکنے کی اپنی سی سعی میں مصروف ہیں کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ اگر مسلم قوم بیدار ہو گئی تو اس کی عسکری صلاحیت کے سامنے بند باندھنا ممکن نہیں رہے گا اور اس کو حقیقت بنانے کے لئے بہرطور غیر مسلم طاقتوں نے مسلمانوں پر جدید علوم کا حصول تک مشکل ترین بنا رکھا ہے۔ تاہم اس کے باوجود،ایسا نہیں ہے کہ مسلم ریاستیں بالکل ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں،ان مشکلات کے باوجود بھی،پاکستان جیسی ’’ مسائل سے دوچار‘‘ ریاست نے اپنے بل بوتے پر نہ صرف پہلی مسلم ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ تمام تر مشکلات کے باوجود ،اپنی اس صلاحیت کو برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اس میں ایک تسلسل قائم رکھا ہے اور اب اپنے مخالفین پر جدید ترین فضائی برتری کا عملی مظاہرہ کر دکھایا ہے، خلاء میں بھی اپنی تحقیقی صلاحیت کو بڑھانے میں مصروف ہے۔
بہرکیف ریاستوں کی نظریں نہ صرف لمحہ موجود بلکہ آنے والے مستقبل پربھی گڑی ہوتی ہیں اور وہ تبدیلیوں سے بھی مسلسل آگاہ ہوتی ہیں اور اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل ترتیب رہی ہوتی ہیں تا کہ آنے والی وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر،نہ صرف اپنی بقاء بلکہ اپنی حیثیت کومستحکم و بہتر بنا سکیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال اگر حالیہ امریکہ کی لیں تو مزید واضح ہو جاتا ہے کہ اس وقت گو کہ اکلوتی عالمی طاقت کے طور پر نظر آ رہا ہے،حالانکہ اس کی عالمی حیثیت کو اس وقت سخت ترین مسائل اور طاقتور حریف کا سامنا ہے ،کو اپنی معاشی حالت کو سنبھالنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں کہ ایک طرف وہ دنیا بھر میں ’’ گاجر اور چھڑی‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے،امریکی معیشت کی رگوں میں ڈالرز کا خون دوڑانے کے لئے کہیں ٹیرف لاگو کررہا ہے تو کہیں مضبوط معاشی حیثیت رکھنے والی ریاستوں سے جبرا امریکہ میں سرمایہ کاری کروا رہا ہے کہ اس کی معیشت مضبوط رہے۔ جبکہ دوسری طرف اس کی دفاعی صلاحیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی اسلحہ سازی کی صنعت آج بھی ،دنیا بھر میں مضبوطی کے ساتھ اپنے قدموں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے اور جیسے جیسے کرہ ارض پر جنگوں کی چنگاریاں شعلوں میں بدل رہی ہیں ،ویسے ویسے امریکی اسلحہ سازوں کی چاندی ہو رہی ہے کہ ایک طرف اگر پوری دنیا کھڑ ی ہے تو دوسری طرف اکیلا امریکہ اپنی اسلحہ سازی کے بل بوتے پر کھڑاہے۔ تاہم اس وقت امریکہ کو ٹکر دینے کے لئے چین کی اسلحہ سازی صنعت بتدریج دنیا میں مقبول ہورہی ہے بالخصوص پاک بھارت جنگ میں ،جو کارکردگی چینی ساخت کے طیاروں نے دکھائی ہے اور جس طرح پاکستانی شاہینوں نے فرانس کے رافیل طیاروں کو دھول چٹائی ہے،اس نے طاقت کے توازن پر اثر ڈالاہے اور امریکی اس اثر سے بہرطور بوکھلائے بوکھلائے دنیا بھر میں امریکی معیشت کے لئے ڈالرز اکٹھے کرے نظر آ تے ہیں تو دوسری طرف درپردہ جنگوں سلگتی چنگاریوں کو شعلوں میں بدلنے کی خواہش بھی دکھائی دیتی ہے۔
حال ہی میں سعودی دارالحکومت ریاض میں ،’’ FUTURE INVESTMENT INITIATIVE – 9 ‘‘ مستقبل کی سرمایہ کاری کی نویں کانفرنس کا مقصد ایک طرف سعودی عرب میں بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنا ہے تو دوسری طرف اس کا مقصد ’’ انسانیت ‘‘ کو مد نظر رکھنا ہے کہ فقط معاشی ترقی و خوشحالی ،جس میں انسانیت نظرانداز ہو،کافی نہیں۔ مستقبل کی سرمایہ کاری کی یہ نویں کانفرنس تھی ،جو سعودی دارالحکومت میں منعقد ہوئی ، اور اس میں شرکاء کی تعداد دن بدن مسلسل بڑھ رہی ہے اور دنیا کی اس میں دلچسپی کا بڑھنا ،اس امر کا ثبوت ہے کہ بہرطور دنیا کو ادراک ہے کہ آنے والے وقت میں دنیا بھر کی معیشت غیر متوازن یا کسی انجانی ہلچل کا شکار ہوسکتی ہے لہذا اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے قبل از وقت اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ مزید حیرت اس امر پر ہے کہ سعودی عرب جیسی ریاست کہ جس کی معاشی حیثیت ،ماشاء اللہ ،انتہائی سے زیادہ مستحکم ہے ،وہ اپنی معیشت میں تسلسل قائم رکھنے کے لئے ،اپنے وژن 2030کے مطابق تما م تر ضروری اقدامات کررہی ہے کہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنے میں اسے دشواری نہ ہو۔دوسری طرف وطن عزیز اور اس کے حکمرانوں کی کوتاہ قدی، سامنے نظر آرہی ہے کہ حالات و واقعات نے وطن عزیز کے لئے راستے کھولے ہیں مگر حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ سعودی عرب جیسے برادر ملک سے فقط ایک بلین ڈالر تیل کی سہولت اور پانچ بلین ڈالر قرض کے رول اوور پر ہی مسرور و مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستانی دفاعی معاہدے کے بعد،امریکہ کی کیا حالت ہوئی ہے اور کس طرح دوڑا دوڑا سعودی عرب پہنچا ہے،تا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کی تجدید ہو سکے اور اس ریاست سے مال بٹورا جاسکے ،اپنی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے وگرنہ قریت قیاس تھا کہ پاکستان امریکہ کے متبادل کا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے،جو بہرکیف درپردہ پاکستان کسی نہ کسی حد تک کر ہی رہا ہے۔ گو کہ پاکستان کے ساتھ سعودی دفاعی معاہدے کے تفصیل سامنے نہیں آئی البتہ یہ ضرور سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب پر حملہ پاکستان پراور پاکستان پر حملہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگا،اس کے علاوہ دیگر شقیں تاحال منظر عام پرنہیں آئی اور نہ ہی آتی دکھائی دیتی ہیں لیکن یہاں پر اس حقیقت کا اعتراف لازم سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب جیسی فیاض ریاست ،جب ایسے معاہدے کرتی ہے تو پھر بات اس سے کہیں آگے تک ہوتی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ فیاضی کی حد صرف اور ایک بلین ڈالر تیل کی سہولت اور پانچ بلین ڈالر قرض رول اوور،بات حلق سے نیچے نہیں اترتی،یہ بھی توقع نہیں کرتاکہ پاکستانی معیشت کی ساری ذمہ داری بھی سعودی عرب اٹھائے،جو ناممکن بھی نہیں لیکن کیا اس قیادت کے ہوتے یہ ممکن ہے؟اگر اس قیادت کے ہوتے یہ ممکن ہوتا تو دفاعی معاہدے کے بعد،اس کانفرنس میں سعودی حکومت یقینی طور پر پاکستان کو مزید سہولت دیتی لیکن اس کانفرنس میں بھی سرمایہ کاری کا فریم ورک طے ہونا ،وفود کا دونوں ممالک میں جانا،اس امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ پس پردہ میسر ’’ مواقع‘‘ سے سیاسی قیادت بہتر طریقے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے، تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں۔

جواب دیں

Back to top button