امریکہ، بھارت دفاعی معاہدہ اور پاکستان

امریکہ، بھارت دفاعی معاہدہ اور پاکستان
عقیل انجم اعوان
امریکہ اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے جنوبی ایشیا کی سیاست میں موجود رہے ہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے امریکہ نے ہمیشہ پاکستان سے دغا اور بھارت سے وفا کی ہے۔ 2005ء میں ہونے والا ’ امریکہ بھارت اسٹریٹیجک پارٹنر شپ‘ معاہدے کی حالیہ دنوں میں تجدید نے ایک بار پھر خطے میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے خاص طور پر پاکستان میں جہاں اپوزیشن جماعت تحریک انصاف نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے پاکستان کے مفادات کے خلاف ایک پیش رفت قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ معاہدہ کسی نئی دوستی یا خفیہ گٹھ جوڑ کا آغاز نہیں بلکہ ایک پرانے تعلق کی تجدید ہے جس کے بنیادی نکات پہلے سے ہی واضح ہیں۔2005ء میں اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تجارتی سائنسی اور جوہری شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا تھا۔ امریکہ نے بھارت کو اس وقت’ اہم تزویراتی شراکت دار‘ کا درجہ دیا جس کے نتیجے میں بھارت کو نہ صرف جدید امریکی دفاعی ٹیکنالوجی تک رسائی ملی بلکہ اسے عالمی سطح پر ایک مستحکم اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھرنے کا موقع بھی ملا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے بھارت کے ساتھ ’ سول نیوکلیئر ڈیل‘ کی بھی بنیاد رکھی جس سے بھارت کو بغیر این پی ٹی پر دستخط کیے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے یورینیم حاصل کرنے کی اجازت ملی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں عالمی طاقتوں کے توازن میں ایک واضح جھکائو دکھائی دیا۔ امریکہ نے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو متوازن کرنے کی لیے بھارت کو بطور خطے کی قوت سامنے لانے کی پالیسی اختیار کی۔ اسی حکمت عملی کے تحت’ انڈو پیسفک الائنس‘ اور’ کواڈ گروپ‘ جیسے پلیٹ فارمز تشکیل دئیے گئے جن میں جاپان آسٹریلیا امریکہ اور بھارت شامل ہیں۔ مقصد چین کے معاشی اور عسکری پھیلائو کو روکنا اور بحرالکاہل و بحرہند کے خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ تھا۔ اس معاہدے کی اصل حقیقت یہی ہے کہ امریکہ اس کے ذریعے بھارت کو خطے کا تھانے دار بنانا چاہتا ہے۔ واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اگر اسے ایشیا میں اپنی گرفت برقرار رکھنی ہے تو چین کے مقابلے میں بھارت کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر مستحکم کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ گزشتہ دو دہائیوں سے بھارت کو جدید اسلحہ دفاعی ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی حمایت فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پورے انڈو پیسفک خطے میں امریکی پالیسیوں کا نگہبان بن سکے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ہوتے ہوئے بھارت کبھی بھی خطے کا تھانے دار نہیں بن سکتا۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت عسکری صلاحیت اور تاریخی کردار اس خطے میں کسی بھی ملک کو بلا چیلنج برتری حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ امریکہ 2005ء سے ان کوششوں میں مصروف ہے کہ بھارت کو خطے کا محافظ اور چین کے خلاف ایک متوازن قوت کے طور پر پیش کیا جائے مگر یہ خواب آج تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔ پاکستان کی موجودگی اور کردار ہی وہ اصل رکاوٹ ہے جو بھارت کو بلا روک ٹوک خطے میں غلبہ حاصل کرنے سے روکتی ہے۔ جنوبی ایشیا کا تزویراتی توازن پاکستان کے بغیر نامکمل ہے۔ چین اور پاکستان کے مضبوط تعلقات، سی پیک جیسے معاشی منصوبے اور دفاعی اشتراک نے اس خطے میں امریکہ کے منصوبوں کو محدود کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کے لیے بھارت کو مکمل طور پر خطے کا’’ سیکیورٹی گارڈ‘‘ بنانا ممکن نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں تحریک انصاف نے اس معاہدے کی تجدید پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے امریکہ کو غیر ضروری رعایتیں دے کر قومی مفادات کا سودا کیا ہے۔ لیکن درحقیقت پاکستان اس معاہدے کا فریق ہی نہیں۔ یہ دو خودمختار ریاستوں کا باہمی دفاعی و تزویراتی معاہدہ ہے جس سے پاکستان کے سفارتی یا عسکری مفادات براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔ البتہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ خطے کی طاقت کا توازن بتدریج بھارت کے حق میں جھک رہا ہے اور امریکہ اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ پاکستان کو یہاں دو پہلوئوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ اسے اپنی خارجہ پالیسی کو ردعمل کے بجائے پیش قدمی کی بنیاد پر ترتیب دینا ہوگا۔ ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ امریکہ بھارت تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھا مگر کبھی ان کے متبادل تعلقات مضبوط نہیں کیے۔ چین کے ساتھ دوستی اپنی جگہ مضبوط ہے لیکن عالمی سیاست میں ایک ہی محور پر انحصار خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو خلیجی ریاستوں یورپ اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنی معاشی و تزویراتی شراکت داری کو بڑھانا چاہیے تاکہ کسی ایک بلاک پر انحصار نہ رہے۔دوسرا پہلو دفاعی توازن کا ہے۔ بھارت کے پاس جدید امریکی اسلحہ رافیل طیارے اور میزائل سسٹمز کی موجودگی خطے میں عسکری برتری کو واضح طور پر اس کے حق میں کر رہی ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دفاعی پالیسی میں تکنیکی خودکفالت پر توجہ دے۔ چین کے ساتھ مشترکہ دفاعی منصوبے جیسے جے ایف 17تھنڈر یا سی پیک سے منسلک عسکری ٹیکنالوجی کے اشتراک کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔ اس تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات میں قربت کے باوجود امریکہ پاکستان کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کر سکتا۔ پاکستان اب بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم فریق ہے۔ افغانستان میں استحکام کے لیے واشنگٹن اسلام آباد کے کردار کو تسلیم کرتا ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ کے لیے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ناقابل تردید ہے کیونکہ وسط ایشیا خلیج اور چین کے درمیان پاکستان ہی وہ خطہ ہے جہاں سے بڑی طاقتوں کے مفادات ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ حالیہ تجدید شدہ معاہدہ دراصل ’’ ڈیفنس ٹیکنالوجی اینڈ ٹریڈ انیشی ایٹو‘‘ کے تحت تعاون کو بڑھانے کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے امریکہ بھارت کو مشترکہ دفاعی پیداوار اور حساس ٹیکنالوجی کے تبادلے کی سہولت دے رہا ہے۔ اگرچہ اس سے بھارت کی عسکری استعداد میں اضافہ ہوگا لیکن اس کے اثرات پاکستان پر براہ راست نہیں پڑیں گے جب تک کہ پاکستان اپنی دفاعی تیاریوں کو مضبوط رکھے اور سفارتی محاذ پر فعال کردار ادا کرے۔ خطے کی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات دراصل چین کے خلاف حکمت عملی کا حصہ ہیں نہ کہ پاکستان کے خلاف۔ لیکن چونکہ بھارت ہمیشہ اپنے دفاعی اور سیاسی مفادات کو پاکستان کے تناظر میں بیان کرتا ہے اس لیے ہر امریکی تعاون بالواسطہ طور پر ہمارے لیے بھی چیلنج بن جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان کی سفارت کاری کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ اگر پاکستان عالمی سطح پر اپنے کردار کو متوازن رکھے چین اور امریکہ دونوں سے تعلقات کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر چلائے اور داخلی طور پر سیاسی استحکام پیدا کرے تو یہ معاہدے محض کاغذی اعلانات بن کر رہ جائیں گے۔ تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے بین الاقوامی معاہدات کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے قومی مفاد کے تناظر میں دیکھیں۔ امریکہ بھارت تعلقات پر شور مچانے سے پاکستان کے مفادات کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ دنیا کو یہ پیغام ملتا ہے کہ پاکستان اپنے خطے کے حقائق سے خوفزدہ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس مضبوط دفاع مستحکم سفارتی بنیادیں اور خطے میں اہم جغرافیائی کردار موجود ہے۔ آخر میں اگر اس پورے معاملے کو بغور دیکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امریکہ بھارت معاہدہ دراصل جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو ازسرنو ترتیب دینے کی امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ امریکہ اس معاہدے کے ذریعے بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان کے ہوتے ہوئے بھارت کبھی خطے کا تھانے دار نہیں بن سکتا۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے واشنگٹن 2005ء سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر آج تک ناکام رہا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو بہتر بنائے داخلی استحکام پیدا کرے اور عالمی نظام میں خود کو ایک متحرک اور خوداعتماد ریاست کے طور پر پیش کرے کیونکہ عالمی تعلقات میں ہمیشہ وہی ملک مضبوط رہتا ہے جو اپنے فیصلے خود کرے دوسروں کے ردعمل میں نہیں بلکہ اپنی بصیرت سے آگے بڑھے۔





