
وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین کا لاہور چیمبر کا دورہ
وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر نے کہا ہے کہ پالیسی ریٹ سنگل ڈیجٹ میں لانے پر کام جاری ہے اور انڈسٹری کے لیے بجلی ٹیرف میں ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ زرعی پروڈکٹیوٹی بہت کم ہے جسے بڑھانا ہوگا۔ اس کے لیے ریسرچ میں حکومت اور نجی شعبے دونوں کو سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ جو بھی زراعت میں ریسرچ کرے، حکومت فنڈنگ کرے گی۔ بہتر بیج ترقی کی کنجی ہے۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کے دوران کیا۔ اس موقع پر صدر لاہور چیمبر فہیم الرحمٰن سہگل، نائب صدر خرم لودھی، نائب صدر سارک چیمبر میاں انجم نثار سمیت سابق صدر محمد علی میاں اور ایگزیکٹیو کمیٹی ممبران بھی موجود تھے۔
صدر فہیم الرحمٰن سہگل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی ملک کی اہم ترین منسٹری ہے اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں فوڈ سیکیورٹی کے شدید چیلنجز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فی ایکڑ زرعی پیداوار خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ گندم، چاول اور کاٹن بیلز کی پیداوار میں بھی پچھلے سال کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان فوڈ آئٹمز اور کھاد امپورٹ کر رہا ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے۔ ہمارا بیج عالمی معیار کا مقابلہ نہیں کر پا رہا اور فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ فوڈ پراسیسنگ اور حلال فوڈ انڈسٹری پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ویلیو ایڈیشن کے ذریعے معیشت بہتر ہو سکے۔
فہیم الرحمٰن سہگل نے کہا کہ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے جبکہ غذائی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ 50 فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جا چکی ہے اور غربت بڑھنے سے جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کاٹن بیلز کی پیداوار دس لاکھ سے کم ہو کر سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ ہارویسٹ کے دوران 30 فیصد تک خوراک ضائع ہو جاتی ہے جو نظام کی بڑی ناکامی ہے۔
انہوں نے کسانوں کے نقصانات کے ازالے، گندم کی سپورٹ پرائس بڑھانے اور زرعی شعبے کی جدید خطوط پر ترقی کے لیے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے مزیدکہا کہ تمام سیکٹرز کی بہتری کے لیے ہمیشہ کام کیا ہے۔ میں نے وزارت صنعت و پیداوار خود لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی آج عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور دنیا بھر میں اسے انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اکانومی ایگریکلچر بیسڈ ہے، جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 25 فیصد ہے اور ایکسپورٹس میں ٹیکسٹائل کے بعد زرعی شعبہ دوسرے نمبر پر ہے۔رانا تنویر حسین نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے دوران بجلی اور گیس کے سنگین مسائل حل کیے گئے۔ انڈسٹری کی گروتھ میں بجلی سب سے بڑا چیلنج تھی جبکہ حکومت نے گیس بحران ختم کیا، آر ایل این جی متعارف کرائی اور اکنامک انڈیکیٹرز بہتر کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے نکالا۔ تاہم آئی ایم ایف پروگرام کے باعث سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں جن سے گروتھ رک جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیشنل سیڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کردی گئی ہے، نقلی بیج کی سخت روک تھام کی جارہی ہے اور سرٹیفائیڈ بیج کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بینکوں کو زراعت کے لیے فنانس بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے اور ایس ایم ایز کی فنانسنگ بھی بہتر کی جا رہی ہے۔
رانا تنویر حسین نے کہا کہ فرٹیلائزر کی قلت پیدا نہیں ہونے دی گئی اور نہ ہی قیمتیں بڑھنے دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایگری بیسڈ انڈسٹری کی عالمی سطح پر بڑی ڈیمانڈ ہے، حلال میٹ اور رائس ایکسپورٹ کے بڑے مواقع موجود ہیں اور حلال اتھارٹی ان کی قائم کردہ ہے۔ پاکستان لائیوسٹاک اور دودھ کی پیداوار میں دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، مگر 89 فیصد ایڈیبل آئل امپورٹ کرنا پڑتا ہے جسے کم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی ہمارے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں اور انڈسٹریلائزیشن اور ایکسپورٹس میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ایکسپورٹ کو 100 بلین ڈالر تک لے جانا ہوگا۔ اگلی نسل کے لیے مضبوط پاکستان چھوڑنا ہے۔ ٹیکس کا غیر ضروری بوجھ ختم کریں گے۔ آئی ٹی، ایگری اور مائن منرلز میں بے پناہ پوٹینشل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے نکل کر گروتھ تیز ہو جائے گی۔ کاسٹ آف پروڈکشن کم ہونا لازمی ہے ورنہ ایکسپورٹس نہیں بڑھیں گی۔ حکومت فوکس ہے، دن رات محنت کر رہی ہے۔ ایس آئی ایف سی بہترین کام کر رہی ہے اور ایز آف ڈوئنگ بزنس حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔







