Column

رکاوٹ کون؟

رکاوٹ کون؟
تحریر: رفیع صحرائی
خیبر پختونخوا کے نومنتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی بڑے غصے میں ہیں۔ انہیں غصہ اس بات پر ہے کہ ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے بھی انہیں مقتدر حلقوں سے عزت نہیں مل رہی۔ ان کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اس معاملے کو لے کر وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ گلہ نہیں کر رہے بلکہ باقاعدہ غصہ کر رہے ہیں کہ عدالت سے اجازت ملنے کے باوجود ان کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے نہیں کروائی جا رہی۔ گزشتہ روز چارسدہ میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود ان کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے نہیں کرائی جا رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے انہوں نے پنجاب اور وفاقی حکومت کو خط بھی لکھے۔ ملاقات نہ ہونے پر میں عوام کے پاس آیا ہوں۔ جس نے قوم پر ظلم و جبر کیا ہے اس کو عوام کے کٹہرے میں لائیں گے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ تیاری پکڑ لیں، ہم بانی چیئرمین کو جیل سے نکالیں گے۔
سہیل آفریدی جب سے وزیر اعلیٰ بنے ہیں مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ان کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے ہو جائے مگر وہ ابھی تک اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکے، یہ بات وہ خود بھی بخوبی جانتے ہیں۔ بیرسٹر سیف انہی کی حکومت کے نمائندہ ہیں۔ انہیں ملاقات سے آج تک انکار نہیں ہوا۔ سہیل آفریدی ان کے ذریعے پیغام رسانی کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ پیغام رسانی کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ اپنی حیثیت کو منوانے کا ہے جس میں فی الحال وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن حسن ایوب خان کے مطابق وہ کورٹ آرڈر کے بغیر اڈیالہ جیل بانی سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ اس کی وجہ تو سہیل آفریدی خود ہی بتا سکتے ہیں۔ کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
جہاں تک پنجاب اور وفاقی حکومت کو خط لکھنے کی بات ہے تو یہ کام خط لکھنی والا نہیں ہے۔ وہ پنجاب کی جیل میں بند ایک قیدی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ پنجاب سہیل آفریدی کی عملداری میں نہیں آتا کہ وہ خط کے ذریعے اطلاع دے کر کسی قیدی سے ملنے پہنچ جائیں۔ اگر انہوں نے وفاقی یا پنجاب حکومت کو درمیان میں لانا ہے تو اس کے لیے انہیں خط لکھنے کی نہیں بلکہ اجازت مانگنے کی ضرورت تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سہیل آفریدی بانی سے ملاقات کرنا ہی نہ چاہتے ہوں۔
دوسری طرف منصور علی خان کے ایک پروگرام میں اس وقت شرکائے پروگرام اور ناظرین حیرت زدہ رہ گئے جب پی ٹی آئی کے رہنما اور عمران خان کے مرکزی وکیل انتظار پنجوتھہ نے یہ دعویٰ کر دیا کہ جب نواز شریف جیل میں تھے تو وہ باقاعدہ آرڈیننسز پر دستخط کرتے تھے حالانکہ حکومت بھی ہماری تھی۔ جبکہ اب عمران خان سے ہماری ملاقات نہیں کروائی جاتی۔ منصور علی خان نے انہیں جب یہ کہا کہ آرڈیننس واحد دستاویز ہے جس پر صرف صدر مملکت دستخط کرنے کا مجاز ہے کوئی دوسرا شخص اس پر دستخط نہیں کر سکتا۔ نواز شریف تو کبھی صدر رہے ہی نہیں تو پھر وہ آرڈیننس پر کیسے دستخط کر سکتے تھے تو انتظار پنجوتھہ پھر بھی اپنی بات پر اڑے رہے اور کہا کہ آپ گوگل کر کے دیکھ لیں۔ اس پر منصور علی خان نے پروگرام میں شریک مہمانوں حسن ایوب خاں اور اختیار ولی خان کو بولنے سے منع کرتے ہوئے انتظار پنجوتھہ سے کہا کہ وہ خود ہی گوگل کر کے بتا اور دکھا دیں۔ انتظار پنجوتھہ نے گوگل سے تحریر تلاش کر کے پڑھ کر سنا دی جو ان کے اپنے ہی دعویٰ کی نفی کر رہی تھی لیکن وہ پھر بھی اپنی بات پر قائم رہے کہ نواز شریف جیل میں آرڈیننسز پر دستخط کیا کرتے تھے۔ ایک نامور وکیل کی جانب سے اس طرح کا مضحکہ خیز دعویٰ قابلِ افسوس ہی نہیں قابل غور بھی ہے کہ اگر عمران خان کی وکلاء کی ٹیم کے ایک اہم ممبر کی قابلیت کا یہ معیار ہے تو باقی وکلاء بھی ایسے ہی تو نہیں ہیں جو بغیر تیاری کے عدالتوں میں پیش ہوتے ہوں اور اپنے موکل کا دفاع کرنے میں ناکام رہتے ہوں۔ ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے پارٹی ممبران وکیلوں کی بجائے بھاری فیس لینے والے وکلاء کی خدمات حاصل کرنے پر غور شروع کر دیا ہو۔
تیسری طرف سابق اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے 200فیصد امکانات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی کے کیس میرٹ پر چلیں تو ایک دن بھی جیل میں نہیں رہیں گے۔ اسی نشست میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ منتقلی پر پارٹی میں مشاورت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کہیں منتقلی کی درخواست دینے کی ضرورت نہیں، یہ حکومت کی صوابدید ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے اس وقت موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں ہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ نومبر میں احتجاج سے متعلق کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ بانی نے تحریک کی ذمہ داری محمود اچکزئی کو دی ہے۔ ہم نے جلسوں کے ذریعے عوام کو متحرک کرنا ہے۔
اسد قیصر کے اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں تضاد نظر آتا ہے۔ ایک طرف وہ بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ منتقلی پر رضامند نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اس بات کی تردید بھی کر رہے ہیں کہ ان کے موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رابطوں کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ ہو جائے جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر تیار نہ ہو۔ سمجھنے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بیک ڈور چینلز سے رابطوں کے بغیر ایسی بیلیں منڈھے نہیں چڑھا کرتیں۔ وہ میرٹ پر کیسز کی بات کر رہے ہیں جبکہ خان کے خلاف فیصلوں میں ان کے وکلاء بھی برابر کے شریک ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف ثبوت اتنے پکے ہوں کہ وکلا کے پاس انہیں جھٹلانا ممکن نہ ہو۔ نومبر میں احتجاج کے زیر غور نہ ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سہیل آفریدی ابھی اس امتحان کے لیے تیاری نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر اس بات کو محمود اچکزئی کی تحریک کی قیادت کی ذمہ داری سے ملا کر دیکھا جائے تو یہ مقتدرہ کے لیے خیرسگالی کے جذبات کا پیغام بھی ہو سکتا ہے۔
چوتھی طرف رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما شیر افضل مروت نے عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل تقریباً طے پا چکی تھی جس کے تحت عمران خان کی رہائی بھی متوقع تھی تاہم رینجرز کے واقعے نے سارا معاملہ ختم کر دیا۔ شیر افضل مروت کے مطابق 3نومبر کو مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے لیے ایک 4رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی میں علی امین گنڈاپور، بیرسٹر گوہر علی خان، محسن نقوی اور رانا ثناء اللہ شامل تھے جب کہ بعد میں وہ خود بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے بتایا کہ مذاکرات کے دوران کئی امور پر اتفاق رائے ہو چکا تھا جن میں عمران خان کی رہائی بھی شامل تھی۔ اس سلسلے میں وزیرداخلہ نے اپنا جہاز بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کے لیے فراہم کیا تاکہ وہ اٹک جیل جا کر عمران خان کو مذاکرات کی پیشرفت سے آگاہ کر سکیں۔ شیر افضل مروت کے بقول، 25نومبر کو بیرسٹر گوہر اٹک جیل پہنچے جہاں عمران خان کا ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کیا جانا تھا۔ اس پیغام میں عمران خان نے اپنے کارکنوں کو ہدایت دینی تھی کہ وہ سنگجانی میں ان کی رہائی تک قیام کریں۔ ان کے مطابق بیرسٹر گوہر سے ویڈیو بنانے کے لیے موبائل مانگا گیا تو انہوں نے کہا موبائل جیل میں نہیں لایا کیونکہ اجازت نہیں ہے۔ جیل کے ایک اہلکار نے کہا یہ میرا موبائل ہے اس پر ویڈیو بنالیں لیکن عمران خان نے جیل اہلکار کے موبائل پر ویڈیو بنانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شک ہے کہ ویڈیو ٹیمپر نہ کر دی جائے۔ پھر فیصلہ کیا گیا کہ اگلی صبح بیرسٹر گوہر اپنا موبائل لائیں گے اور پیغام ریکارڈ کیا جائے گا۔ شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا کہ اسی رات رینجرز کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد تمام طے شدہ معاملات ختم ہو گئے۔ ان کے مطابق اس وقت تک ریاست کسی تصادم کی خواہش مند نہیں تھی اس لیے ہر قسم کے کمپرومائز پر آ چکی تھی مگر رینجرز واقعے کے بعد سب ختم ہو گیا۔ یہ ڈیل تھی اس کے تحت صبح عمران خان کی رہائی ہونی تھی۔
قارئین کرام! اب فیصلہ خود ہی کر لیجئے کہ عمران خان کی رہائی کی راہ میں کون رکاوٹ ہی۔ شیر افضل مروت کے دعوے کو ابھی تک کسی نے جھٹلایا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان ڈیل کر چکے تھے۔ عمران خان اگر باہر آ گئے تو پی ٹی آئی بہت سے لیڈر بونے ہو جائیں گے۔ کتنے ہی یوتھیوبرز بی روزگار ہو جائیں گے۔ عمران خان کا نہ جھکنے والا، نہ ڈیل کرنے والا بت بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا ان بینیفشریز کی مجبوری ہے۔ اگر معتدل مزاج لیڈرشپ نے معاملات اپنے ہاتھ میں نہ لیے تو اشتعال دلانے والے 2026ء میں بھی بانی پی ٹی آئی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ وہ جیل کاٹے گا اور مفاد پرست فائدے اٹھائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button