
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے درمیان بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے متعلق گزشتہ سال 25 نومبر میں معاملات طے پا گئے تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات 3 نومبر کو شروع ہوئے تھے جس کے لیے چار رکنی کمیٹی بنی تھی جس میں علی امین گنڈاپور، بیرسٹر گوہر، محسن نقوی اور رانا ثناء اللہ شامل تھے، بعد میں ایک موقع پر میں بھی شامل ہو گیا۔
ان کے مطابق عمران خان کی رہائی پر مکمل اتفاق ہو گیا تھا ۔
25 نومبر کی رات بیرسٹر گوہر کو جیل بھیجا گیا جہاں پر عمران خان نے ویڈیو ریکارڈ کرانی تھی، اس معاہدے کے تحت عمران خان کو اگلی صبح رہا کیا جانا تھا۔
بیرسٹر گوہر نے عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اور کہا کہ آپ یہ ویڈیو بنا کر دیں تاکہ جو لوگ خیبر پختونخوا سے آ رہے ہیں ہم انہیں یہ ویڈیو سنا دیں اور لوگ سنگجانی سے آگے نہ بڑھیں اور سنگجانی پر اس وقت تک ٹھہرنا ہے جب تک خان صاحب باہر نہ آ جائیں۔
عمران خان نے جب بیرسٹر گوہر سے جب موبائل مانگا تو ان کے پاس موبائل نہیں تھا کیونکہ جیل میں موبائل اندر لے کر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک جیل والا آگے بڑھا موبائل دینے کے لیے تو خان صاحب نے کہا نہیں اس پر مجھے شک ہے، یہ لوگ ٹیمپرنگ کر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن رات کو ہی رینجرز والا وقوعہ ہو گیا، تو پھر بیرسٹر گوہر نے اگلی صبح جو آنا تھا وہ نہ آسکے، اگر رینجرز اہلکاروں والا وقوعہ نہ ہوتا تو ناصرف خان صاحب باہر ہوتے بلکہ بہت سے معاملات بھی حل ہو جاتے۔







