
اسلام آباد/ریاض — عالمی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے حالیہ دفاعی معاہدے نے مشرق وسطیٰ کی سلامتی میں ایک نیا پہلو شامل کر دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس شراکت داری میں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور ریاض کے مالی وسائل خطے کے توازنِ طاقت کو نئی شکل دے سکتے ہیں۔
بدھ کے روز طے پانے والے ’’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ کے بارے میں تفصیلات تاحال محدود ہیں۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف روایتی حریف بھارت کے خلاف ہے، تاہم سعودی عرب کے اشاروں سے بظاہر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ کسی نہ کسی سطح پر ’’ایٹمی تحفظ‘‘ فراہم کرنے کی سوچ سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے رائٹرز سے گفتگو میں واضح کیا کہ معاہدے میں ایٹمی ہتھیار شامل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق یہ تعاون خلیج کے دیگر ممالک تک بھی پھیلایا جا سکتا ہے، اور اسے صرف دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ’’ہمارا ارادہ جارحیت کا نہیں، لیکن اگر کسی فریق کو خطرہ لاحق ہوا تو یہ معاہدہ مؤثر ہو گا،‘‘ انہوں نے کہا۔
دوسری جانب سعودی حکومت نے بیان دیا ہے کہ یہ معاہدہ دفاعی تعاون کو آگے بڑھانے اور مشترکہ دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے ہے۔ تاہم اس میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی شمولیت پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
عالمی سطح پر اس پیش رفت پر فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔ واشنگٹن اور تل ابیب نے تاحال خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے بھارت اور ایران میں خدشات ضرور جنم لے سکتے ہیں۔
یہ دفاعی تعاون ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ممالک اسرائیل سے بڑھتے خطرات محسوس کر رہے ہیں، اور ایسے میں پاکستان کی شمولیت خطے کی سلامتی کے نقشے پر ایک نئی لکیریں کھینچ سکتی ہے۔







