
اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس کی جانب سے بینچز کی تشکیل اور ججز کو عدالتی کام سے روکنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کر دی ہے۔ درخواست گزاروں میں جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس اعجاز اسحاق خان شامل ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے دائر کردہ پٹیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ریاست پاکستان کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ انتظامی اختیارات عدالتی دائرہ اختیار پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ چیف جسٹس پہلے سے تشکیل شدہ بینچ میں تبدیلی کے مجاز نہیں، اور نہ ہی وہ اپنی منشا کے مطابق کسی جج کو روسٹر یا عدالتی فرائض سے الگ کر سکتے ہیں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی ہائی کورٹ کے جج کو صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہی فرائض سے روکا جا سکتا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران انہیں عدالتی کام سے روک دیا تھا۔ بعد ازاں جاری ہونے والے روسٹر میں جسٹس طارق جہانگیری کا نام تمام بینچز سے خارج کر دیا گیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے بھی اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جج کو عدالتی فرائض سے روکنے کا فیصلہ آئین اور قانون کے منافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ان کے آرٹیکل 10 اے کے تحت منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ججز کی جانب سے دائر پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ متنازع حکم سے ایک بے داغ شہرت رکھنے والے جج کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، اور عدالتی خدمات کے ضائع ہونے والے وقت کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔ درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ معطل کر کے آئین کی روشنی میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔







