
11 ستمبر کو رہبر معظم ، قائد ملت ، بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ وفات انتہائی عقیدت و احترام سے ملک بھر میں منایا جائے گا ۔
بانی پاکستان کے مزار پر آج مشہور شخصیات سمیت شہریوں کا حاضری دینے کا سلسلہ جاری رہے گا جبکہ پھولوں کی چادریں بھی چڑھائی جائیں گی۔
لیکن قائداعظم محمد علی جناح کی موت ایک معمہ بن چکی ہے جو آج تک کبھی حل نہ ہو سکی ؟ قائد اعظم کی وفات سے قبل ہونے والے متعدد پر اسرار واقعات کیا محض اتفاق تھے ؟
قائد کی وفات کی کہانی 11 ستمبر 1948 کی صبح کو شروع ہوتی ہے جب کراچی سے دو جہاز کوئٹہ آئے۔ قائد کے لئے ان کے خصوصی طیارے میں دو سیٹوں کو جوڑ کر بستر بنایا گیا۔
کیا بابائے قوم کے لیے یہ زیب دیتا ہے کہ نا ساز طبیعت میں ان کو دو سیٹوں کو جوڑ کر ایک بستر بنا کر دیا جائے ؟
جب کرنل الٰہی بخش نے جہاز میں موجود آکسیجن کے سلنڈرز کو دیکھا تو ان میں آکسیجن بہت کم تھی۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کس نے کیا؟
جبکہ ایک بیمار آدمی جس کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ چکے ہوں، اس کے لئے آکسیجن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر کراچی سے بھیجے گئے جہاز میں آکسیجن سلنڈر میں آکسیجن کی مقدار بہت کم کیوں رکھی گئی؟ کرنل الٰہی بخش کے بقول کوئٹہ کے ڈاکٹروں نے قائد کے لئے آکسیجن سے بھرے سلنڈرز کا انتظام کیا۔
کراچی سے پرواز بھر کر قائد کا جہاز چار بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترا۔ قائد کو فوجی ایمبولنس میں منتقل کیا گیا۔ قافلے کی منزل گورنر جنرل ہاؤس تھا۔ قافلہ روانہ ہوا۔ قائد کے ساتھ ایمبولنس میں فاطمہ جناح اور نرس سسٹر فلس ڈنہم سوار ہوئیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر مشتری اور کرنل نولز کیڈلک کار میں سوار ہوئے۔ ضروری سامان ٹرک پر لاد دیا گیا۔ گورنر جنرل ہاؤس ماڑی پور سے 9 میل دور تھا۔ فوجی ایمبولنس نے چار میل کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہو گئی۔
ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول انہوں نے ڈرائیور سے پوچھا تو بتایا گیا کہ انجن خراب ہو گیا ہے۔ یہی بات فاطمہ جناح کو بتائی گئی۔ 20 منٹ تک ڈرائیور نے ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ تنگ آ کر فاطمہ جناح نے کرنل نولز کو دوسری ایمبولنس لینے کے لئے بھیجا۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر مستری کو بھی بھیجا گیا۔
یہ قافلہ ایک گھنٹے سے زائد ماڑی پور کے جنگل میں کھڑا رہا۔ دوسری ایمبولنس لانے میں بہت وقت صرف ہوا۔ بقول سردار شوکت حیات کے، اس وقت کراچی کے ملٹری اور نیول اسپتالوں میں بہترین ایمبولنسز موجود تھیں۔ تو قائد کو خراب آرمی ایمبولنس کس نےدی؟ اور جب دوسری ایمبولنس کے لئے بھیجا گیا تو وہ مل نہ سکی۔
یہاں پر ایک اور بات حیران کن ہے۔ قائد نے 29 اگست کو یہ بات کہی کہ وہ کراچی کے گورنر ہاؤس میں ٹھہرنے کی بجائے ملیر میں نواب بہاولپور کی رہائش گاہ پرٹھہرنا چاہتے تھے۔ پھر ان کو گورنر جنرل ہاؤس کون لے کر گیا؟
گورنر جنرل ہاؤس پہنچ کرقائد کی حالت کا جائزہ لیا گیا۔ وہ گہری نیند میں تھے۔ ملٹری سیکرٹری کرنل نولز کو ایک نرس کا اہتمام کرنے کا کہا گیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کراچی کے دو ڈاکٹروں کو بلانا چاہا۔ کرنل مظہر حسین شاہ اور کرنل سعید احمد۔ اطلاع دینے پر بھی دونوں نہیں آئے۔ سوال ہے یہ کہاں تھے؟
قائد کے لئے دوسری نرس کا اہتمام نہ ہو سکا۔ حیرت ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں نرسوں کا قحط کیسے پڑ گیا۔ 7 بجے شروع کی گئی اس بھاگ دوڑ میں 8 بج کر 20 منٹ ہو گئے۔ قائد کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔ اس دوران ان کو دل کی دوا کا انجکشن لگایا گیا مگرقائد نہ سنبھل سکے ، اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔







