
وفاقی حکومت نے 2024 سے 2029 تک کے نجکاری پروگرام کے تحت 24 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے نجکاری، عبدالعلیم خان نے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ایک تحریری جواب میں بتایا کہ یہ نجکاری تین مرحلوں میں مکمل کی جائے گی، جس کی منظوری وفاقی کابینہ پہلے ہی دے چکی ہے۔
پہلے مرحلے، جو کہ ایک سال پر محیط ہوگا، میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (PIA)، روزویلٹ ہوٹل نیویارک، فرسٹ ویمن بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، زرعی ترقیاتی بینک، پاکستان انجینیئرنگ کمپنی، سندھ انجینیئرنگ لمیٹڈ، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی، اور گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی جیسے ادارے شامل ہیں۔ ان اداروں کی نجکاری کو اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے تاکہ حکومتی مالی بوجھ کم ہو سکے اور ان اداروں کو نجی شعبے کی کارکردگی کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
دوسرے مرحلے میں، جو کہ ایک سے تین سال کے اندر مکمل کیا جائے گا، مزید 13 ادارے شامل ہیں، جن میں پاکستان ری انشورنس کمپنی، سٹیٹ لائف انشورنس، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن، جامشورو پاور کمپنی، سینٹرل پاور جنریشن کمپنی، ناردرن پاور جنریشن کمپنی، لاکھڑا پاور کمپنی، لاہور، ملتان، ہزارہ، حیدرآباد، پشاور اور سکھر کی الیکٹرک سپلائی کمپنیاں شامل ہیں۔ ان اداروں کی نجکاری کے لیے بھی متعلقہ پلان ترتیب دیے جا رہے ہیں تاکہ شفاف طریقے سے یہ عمل مکمل ہو سکے۔
تیسرے مرحلے میں، جو تین سے پانچ سال کے عرصے پر محیط ہوگا، پوسٹل لائف انشورنس کمپنی کی نجکاری کی جائے گی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ نجکاری کا یہ عمل معیشت میں بہتری لانے، مالیاتی خسارے کو کم کرنے، اور سرکاری شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ تاہم، اس فیصلے پر مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے، خاص طور پر ان اداروں کے ملازمین اور مزدور تنظیموں کی جانب سے، جو اپنے روزگار کے تحفظ کے لیے فکرمند ہیں۔
نجکاری کے اس وسیع پروگرام پر عملدرآمد آئندہ چند سالوں میں پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کا ایک اہم ستون ثابت ہوگا، جس کی کامیابی یا ناکامی معیشت پر دور رس اثرات ڈال سکتی ہے۔







