تازہ ترینخبریںسیاسیاتپاکستان

پاکستان تر نوالہ نہیں رہا : واشنگٹن کی پالیسی شفٹ یا وقتی مفاد؟

فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کے عالمی تعلقات میں جو تبدیلی آئی ہے، اسے محض وقتی اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ برطانوی جریدے "دی اکانومسٹ” کی توجہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب پاکستان سفارتی میز پر محض ایک شریک نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن قوت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والے حالیہ مضمون میں جس طرح پاکستان کے فیلڈ مارشل کو خطے کی سفارتی و اسٹریٹجک تبدیلی کا معمار بتایا گیا ہے، وہ اس تبدیلی کی تصدیق ہے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں ہمیں امریکہ کے رویہ کچھ بدلا بدلا سا نظرآتا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر سخت تجارتی ٹیرف عائد کرنا اور پاکستان کے ساتھ نسبتاً کم ٹیرف پر تجارتی معاہدہ کرنا کسی ایک واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک بڑی پالیسی تبدیلی کا عندیہ ہے۔ میں نے ڈان انگلش میں توقیر حسین کے کالم میں پڑھا کہ ٹرمپ کی پالیسی بین الاقوامی ادارہ جاتی اصولوں کے خلاف جارحانہ دوطرفہ فیصلوں پر مبنی ہے۔ ان فیصلوں کا مقصد نہ صرف معاشی فائدہ ہے بلکہ اس کے پیچھے اسٹریٹجک ترجیحات بھی موجود ہیں۔

بھارت جو خود کو عالمی سیاست میں ایک آزاد طاقت تصور کرتا رہا ، اب خود کو نئی سفارتی حقیقتوں میں گھرا ہوا پاتا ہے۔ نہ صرف برکس یا ایس سی او میں بھارت کی حیثیت متنازع ہو چکی ہے بلکہ چین کے ساتھ کشیدگی، امریکہ کے بدلتے تیور نے اسے اندرونی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ توقیر حسین نے اپنے کالم میں لکھا کہ بھارت کا ‘سٹریٹیجک آٹانومی’ کا دعویٰ اب جانچ کے عمل سے گزر رہا ہے، کیونکہ امریکہ اب اس ‘وفاداری’ کو اہمیت دے رہا ہے جو بھارت نے کبھی نہیں دکھائی۔

عمومی طور پر یہ رائے ہے کہ امریکہ کا ساتھ دینے والے جب امریکہ کی گیم ختم ہوتی ہے تو خود کو تنہا پاتے ہیں۔ افغانستان سے لے کر شام، لیبیا، اور اب یوکرین تک، امریکہ کا ساتھ دینے والے ریاستی عناصر یا تو کمزور ہو چکے یا مکمل طور پر الگ تھلگ کر دیے گئے۔ یہی بھارت کے ساتھ بھی ہو رہا ہے ، نہ امریکہ اس کی روس سے تیل خریدنے پر راضی ہے اور نہ چین کے ساتھ اس کی دشمنی پر نظر انداز کر رہا ہے۔

ایسے میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے، اس کی بہت ساری اہم وجوہات ہیں جن میں حالیہ پاک بھارت جنگ سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس جنگ سے پہلے بھارت نے امریکہ اور دیگر ممالک کے سامنے خود کو ایک مضبوط او ر خود کو خطہ کا چوہدری بتایا ہوا تھا۔ لیکن ہنڈیا بیچ چوراہے تب ٹوٹی جب چھ اور ساتھ مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان پر بزدلانہ حملہ کرتے ہوئے مسجدوں ، نہتے شہریوں اور معصوم بچوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی اس نے پاکستان میں موجود کسی دہشت گرد تنظیم کو نشانہ بنایا ہے لیکن عالمی دنیا نہ بھارت کا یہ موقف مسترد کیا۔

اس جنگ کے بعد کچھ ماضی کے واقعات نےبھی پاکستان کی اہمیت جو پہلے کہیں بند کمرے میں چلی گئی تھی اسے ایک بار پھر بڑھا دیا ہے اور امریکہ کو پاکستان کا ماضی یاد کروایا ہے کیونکہ اس نے نہ صرف خطے میں توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا بلکہ افغانستان، ایران، چین اور مشرق وسطیٰ میں موثر کردار بھی ادا کیا۔ امریکی حکام کی جانب سے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے کردار کو تسلیم کرنا، دفاعی ساز و سامان کی بحالی پر غور، اور کرپٹو و معدنیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کی دلچسپی یہ سب اس بات کی نشانیاں ہیں کہ پاکستان محض ایک اتحادی نہیں بلکہ ایک ممکنہ مرکزی کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی نجی ملاقات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کیا امریکہ ایک بار پھر پاکستان کو اس اسٹریٹجک حیثیت پر واپس لا رہا ہے جو کبھی افغانستان کی جنگ کے دوران حاصل تھی؟ کیا یہ پالیسی کا یوٹرن ہے یا محض ایک وقتی مفاد؟ اس بات کاجواب وقت ہی دے گا۔ مگر ایک بات واضح ہے کہ اس وقت پاکستان کے لیے میدان کھلا ہے، اور وہ اپنے فیصلوں میں اگر ہوشیار رہا تو امریکہ، چین اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ ایک متوازن پالیسی ترتیب دے سکتا ہے۔
پاکستان نے خطے میں بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ تر نوالہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارت کی جگہ عالمی مباحثوں میں پاکستان کا نام لیا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے دی جانے والی صفائیاں، روس سے تیل کے دفاع میں دیے گئے بیانات اور یورپ و امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھارت کی بے چینی اس بات کا ثبوت ہے کہ نئی دہلی خود کو سفارتی طور پر تنہائی کی طرف بڑھتا دیکھ رہا ہے۔اور سونے پر سہاگہ یہ کہ بھارتی اپوزیشن کی لوک سبھا میں حالیہ تقاریر نے اس پر کاری ضرب لگا دی ہے جیسے راہول گاندی نے کہا کہ :پاک بھارت جنگ کے دوران بھارت سفارتی طور پر تنہا نظر آیا۔
پاکستان کے پاس اب موقع ہے کہ وہ اپنی اس ابھرتی ہوئی حیثیت کو اسمارٹ ڈپلومیسی کے ذریعے مستحکم کرے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی میں یہ ممکن ہے کہ پاکستان اب صرف عالمی تعلقات کا فالوور نہ رہے بلکہ ایک پالیسی ساز ریاست کے طور پر ابھرے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنے معاشی مفادات، سفارتی کردار اور سٹریٹیجک پوزیشن کو نپے تلے فیصلوں کے ذریعے استعمال کرے۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور جو ممالک بدلتے رجحانات کو جلدی سمجھ لیتے ہیں، وہی آنے والے کل کے رہنما ہوتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button