
ملک کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالمز میں وزیراعظم شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی اور سیاسی چیلنجز سے متعلق کئی اہم اور معنی خیز مشاہدات اور انکشافات کیے ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ وزیراعظم اپنی سیاسی بصیرت، انتظامی مہارت اور ماضی کی کامیاب حکمرانی کے تجربے کے باوجود وفاقی حکومت میں وہ کرشماتی پرفارمنس دینے سے قاصر نظر آتے ہیں جس کی عوام کو توقع تھی۔ انہوں نے اپنی مرضی اور اعتماد کے مطابق ایک وفادار اور تجربہ کار ٹیم تشکیل دی جس میں توقیر شاہ، احد چیمہ، عطاء تارڑ اور اعظم نذیر تارڑ جیسے قریبی اور آزمودہ افراد شامل تھے۔ ان افراد کو کلیدی حیثیت دی گئی تاکہ وزیراعظم کے وژن کو عملی سطح پر نافذ کیا جا سکے۔ تاہم، اب تک کی کارکردگی دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹیم اسلام آباد میں وہ مقام اور تاثر قائم نہیں کر سکی جو ماضی میں لاہور میں شہباز اسپیڈ کا مظہر تھا۔ نہ سیاسی معاملات میں کوئی واضح پیش رفت سامنے آئی ہے اور نہ ہی پالیسی سازی میں کوئی ٹھوس سمت دکھائی دے رہی ہے۔ شوگر اسکینڈل ہو یا کرپٹو سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات، ان سب میں یہی ٹیم موجود تھی مگر کوئی مؤثر جواب یا شفاف وضاحت عوام کو نہیں دی جا سکی۔
سہیل وڑائچ کے مطابق وزیراعظم کی حکمرانی دباؤ کی دو چکیوں کے بیچ پسنے والے اناج کی مانند ہو چکی ہے۔ ایک طرف ریاستی تقاضے اور طاقتور حلقوں کی حساسیت ہے، تو دوسری طرف جماعتی سیاست اور خاندانی دباؤ ہے۔ ان کے اردگرد ایسے معاملات کا انبار ہے جن میں وہ براہ راست شامل نہیں لیکن الزام ان کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی بڑے سیاسی یا اصلاحاتی فیصلے کی طرف بڑھنے میں جھجھک کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایف بی آر اصلاحات کے معاملے پر بھی صنعتی و کاروباری طبقے نے اپنے تحفظات فیلڈ مارشل کے سامنے رکھ دیے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعظم کے اختیار اور اثر رسوخ پر سوال اٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔
کالم میں ایک اور اہم پہلو پنجاب حکومت کے روّیے کے حوالے سے اٹھایا گیا ہے۔ سہیل وڑائچ نے نشاندہی کی کہ حالیہ دنوں میں جب وزیراعظم لاہور آئے تو نہ وزیراعلیٰ پنجاب ان کے ساتھ تھے، نہ چیف سیکرٹری اور نہ آئی جی پنجاب پولیس۔ یہ ایک ایسی روایت کی خلاف ورزی تھی جو نہ صرف انتظامی آداب سے متصادم ہے بلکہ سیاسی بے اعتنائی کی علامت بھی۔ اسی طرزِ عمل کا مشاہدہ صدرِ پاکستان آصف زرداری کے حالیہ دورہ لاہور میں بھی کیا گیا جہاں خیرسگالی ملاقاتوں کی روایت عملاً ختم ہوتی دکھائی دی۔ یہ رویہ محض مصروفیت یا نظراندازی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کا پتہ دیتا ہے جو وفاقی اتحاد کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔ اگر یہی روش سندھ یا بلوچستان میں بھی اپنائی گئی تو پھر مرکز کی علامتی اہمیت مجروح ہو گی اور وزیراعظم کے وقار پر بھی اثر پڑے گا۔
سہیل وڑائچ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر وزیراعظم کی موجودہ ٹیم کارکردگی نہ دکھا سکی اور پنجاب حکومت کی بے رخی اسی طرح برقرار رہی تو کل کو کوئی غیر لچکدار اور سخت رویہ رکھنے والا وزیراعظم آیا تو ردعمل میں حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول شہباز شریف کے ماضی اور ان کی سیاسی جدوجہد کی روشنی میں عوام ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ لاہور کی طرح اسلام آباد کو بھی نظم و ضبط، گورننس اور پیش رفت کا نمونہ بنائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے نہ اسلام آباد میں لاہور جیسا نظم دکھائی دیتا ہے اور نہ ان کی ٹیم سے وہ تبدیلیاں ابھرتی نظر آتی ہیں جن کی توقع کی جا رہی تھی۔







