نریندر مودی نے وہی کیا جو آمر کرتے ہیں

نریندر مودی نے وہی کیا جو آمر کرتے ہیں
تحریر : قادرخان یوسف زئی
ایک شخص جو اپنے اقتدار کو لاشوں کی سیڑھیوں سے جوڑ کر، خون کی لکیر پر بیٹھ کر، انسانیت کے سروں پر تخت نشین ہوتا ہے، کیا اسے تاریخ معاف کر سکتی ہے؟ نریندر مودی کی سیاست، اس کی فکری ساخت اور اس کی جماعت کا مزاج ایک مدت سے زیرِ بحث ہے۔ گجرات کے سانحے سے لے کر آج تک، مودی کے سیاسی کیریئر کے ہر موڑ پر انسانیت نے کراہ کر پکارا ہے، لیکن جواب میں صرف وہی خاموشی، وہی بے حسی، وہی سیاست جس میں انسان کی قیمت صرف ایک ووٹ، ایک ہدف یا ایک لاش سے زیادہ نہیں۔ آج جب جنوبی ایشیا کی فضا میں انتہا پسندی، مذہبی جنون اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی دھول ہر سمت پھیل چکی ہے تو سوال یہ نہیں کہ مودی کا اقتدار کس طرح مضبوط ہوا، اصل سوال یہ ہے کہ اس اقتدار کی بنیادوں میں کتنے انسانوں کا لہو شامل ہے اور دنیا خاموش کیوں ہے؟
یاد رہے کہ سیاست ایک مقدس فریضہ ہے۔ اسے اگر خدمت کا راستہ نہ بنایا جائے تو یہ فساد اور استبداد کا زہر بن جاتی ہے۔ ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں مودی کی سیاست اس تلخ حقیقت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ گجرات کے فسادات، جن میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بنے، خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں، بچوں کو زندہ جلایا گیا، وہ نہ صرف مودی کی حکومتی ناکامی تھے بلکہ ان کے سیاسی عروج کی پہلی سیڑھی بھی۔ مودی کا عروج دراصل اس نفرت انگیز سیاست کا شاخسانہ ہے جس میں مذہبی اقلیتوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ بی جے پی کی انتہا پسندانہ سوچ اور آر ایس ایس کے نظریات نے پورے بھارتی معاشرے میں ایسا زہر گھول دیا ہے جس کی مثال شاید برصغیر کی سیاسی تاریخ میں کہیں اور نہ ملے۔ جب گجرات میں مسلمانوں کی بستیاں جل رہی تھیں، جب بیگناہ انسانوں کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی تھیں، اس وقت نریندر مودی اپنی کرسی پر براجمان تھا۔ اس نے وہی کیا جو اکثر آمر کرتے ہیں۔ مسئلے سے نظریں چرائیں، حقیقت کو مسخ کیا اور اقتدار کی گلیوں میں خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔
وقت گزرتا گیا، مودی کو وزیراعظم کی کرسی ملی، اس کی مقبولیت بڑھی، ہندو توا کے نظریے کو حکومتی سرپرستی حاصل ہوئی۔ آج بھارت کا آئین کمزور ہے، انسانی حقوق کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور ریاستی جبر کو حب الوطنی کا نام دے دیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا زخم ابھی تک رس رہا ہے۔ آج بھی وادی میں لاشیں گرتی ہیں، مائوں کی گودیں اجڑتی ہیں، نوجوان لاپتہ ہوتے ہیں، اور میڈیا کو زبان بند رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مودی کی پالیسیوں نے مقبوضہ کشمیر کو ایک کھلی جیل میں بدل دیا ہے، جہاں ہر دن کرفیو، ہر رات موت کا سایہ، اور ہر لمحہ خوف کی گرفت میں ہے۔ بھارت میں مودی نے اقلیتوں کو نشانہ بنا کر اپنی اکثریتی سیاست کو چمکایا۔ بابری مسجد کی شہادت ہو، گائے کے گوشت پر مسلمانوں کا قتل ہو، یا شہریت ترمیمی قانون (CAA)کے نام پر مسلمانوں، دلتوں اور دیگر کمزور طبقات کے حقوق سلب کیے جائیں۔ ہر بار مودی سرکار نے لاشوں کی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ بھارتی سیاست نے مکالمے کو نفرت سے بدل دیا، اختلاف کو دشمنی میں ڈھال دیا اور رواداری کو ریاستی جبر سے کچل دیا۔
عالمی برادری کی بے حسی پر بھی سوال اٹھانا لازمی ہے۔ جب نازی ازم کے نظریات کو یورپ میں فروغ ملا تو دنیا نے جنگ عظیم کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگتا۔ آج جب مودی ہندو توا کو پوری شدت کے ساتھ نافذ کر رہا ہے تو انسانی حقوق کے عالمی ادارے، مغربی ممالک اور بڑی طاقتیں صرف اپنے مفادات کی عینک سے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ ہو یا یورپ، ان سب کے لیے بھارت ایک بڑی منڈی، ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اور چین کے مقابلے میں ایک بیلنسنگ پاور ہے۔ اس لیے چاہے گجرات میں نسل کشی ہو یا دہلی میں مسلم آبادی پر حملے، اقوام متحدہ کے بیانات، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس، یا ہیومن رائٹس واچ کے انتباہات،سب کچھ محض کاغذی کارروائی بن کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار عالمی میڈیا میں کوئی کالم، کوئی رپورٹ یا کوئی ٹی وی ڈاکیومنٹری تو آ جاتی ہے، مگر زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔
آج بھارت میں رہنے والے مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم ہوں یا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبا، ہر جگہ آزادی اظہار جرم بن گئی ہے۔ مودی سرکار نے یو اے پی اے اور سیڈیشن جیسے قوانین کو سیاسی مخالفین، صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ اگر کوئی سچ بولے، اگر کوئی لاشوں کی سیاست پر انگلی اٹھائے تو اس پر غداری، دہشت گردی یا ملک دشمنی کا الزام لگا دینا عام ہو گیا ہے۔ یہ وہی حربے ہیں جو آمریتیں دنیا بھر میں استعمال کرتی ہیں۔
مودی کے دور میں بھارتی معاشرت میں ہندو انتہا پسندی کو جو تحفظ ملا ہے، اس نے معاشرتی ہم آہنگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ گائے کے گوشت کے نام پر لنچنگ، مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کی خبریں، مسجدوں اور مدرسوں پر حملے، سب کچھ اس معاشرتی بیماری کا حصہ ہیں جسے مودی نے سیاسی سرپرستی دے رکھی ہے۔ بی جے پی کی سیاست کا دوسرا اہم ستون پاکستان دشمنی ہے۔ مودی نے ہر الیکشن میں پاکستان کا خوف بیچا، سرحدی کشیدگی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا اور فوجی کارروائیوں کو عوامی مقبولیت کا ذریعہ بنایا۔ ممبئی ، پارلیمنٹ، پلوامہ، پہلگام حملہ اور اس کے بعد کے واقعات کو جس طرح سیاسی طور پر استعمال کیا گیا، اس نے بھارتی جمہوریت کی حقیقت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ صرف ایک انتخاب جیتنے کے لیے کروڑوں انسانوں کو جنگ کے خوف میں مبتلا کرنا، میڈیا کو زہر آلود کرنا، اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دشمن تراشی کی روایت کو فروغ دینا، یہ سب مودی کی سیاست کا حصہ ہے۔
مسئلہ صرف بھارت یا مودی تک محدود نہیں۔ خطے کے دیگر ممالک بھی اگر مذہبی جنون اور نفرت کی سیاست کو اپنا لیں گے تو اس خطے میں کبھی پائیدار امن نہیں آ سکے گا۔ آج جنوبی ایشیا کو سب سی زیادہ خطرہ اسی نفرت انگیز سیاست سے ہے جس کی کوکھ سے مودی جیسے لیڈر پیدا ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی، عورتوں اور بچوں کے قتلِ عام، اقلیتوں کی نسل کشی، یہ سب کچھ اس سیاست کا فطری نتیجہ ہے۔مودی کے بھارت میں عورتوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہوئی۔ حالیہ برسوں میں خواتین کے خلاف تشدد، جنسی جرائم اور ریاستی بے حسی میں اضافہ ہوا ہے۔ دہلی میں ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات، ہاتھرس کی بیٹی کا قتل، اور اس کے بعد ریاست کی مجرمانہ خاموشی، سب مودی سرکار کی ترجیحات کو بے نقاب کرتے ہیں۔





