Column

آن لائن ڈاکٹرزاور بے بس عوام

آن لائن ڈاکٹرزاور بے بس عوام !
تحریر : عابد ضمیر ہاشمی
ڈاکٹر ہمارے معاشرے کا وہ محسن طبقہ ہے جوصحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و تکریم سماج کا فریضہ ہے۔ ڈاکٹر مسیح کا درجہ رکھتے ہیں ، معاشرہ میں قابلِ قدر افراد ہیں۔ لیکن اس مقدس پیشہ کوبھی سوشل میڈیا میں خود ساختہ ڈاکٹر بن کر داغدارکیا جارہا ہے ۔ آہستہ آہستہ ہر گلی، محلے اور جدید سوسائٹی میں پرائیویٹ ہسپتالوں، کلینکس، کمپاونڈروں، اتائیوں اور طبیبوں کی بھرمار ہو نے کے ساتھ ہی اب سوشل میڈیا پر مختلف اشتہارات چلا کر عوام کو بیوقوف بنایا جانے لگا، جو خود سے بغیر کسی ٹیسٹ، مرض کی تشخیص ادویات بھیجی جاتی ہیں، بھیجی جانے والی ان ادویات پر نہ تو دوائی کا نام درج ہوتا نہ ہی اس کا طریقہ استعمال لکھا جاتا کہ مریض نے کیسے استعمال کرنی ہیں اور ان ادوایات کے دوران کیا پرہیز وغیرہ کرنا ہو گا، یہ خود ساختہ دوائیاں کئی مریضوں کے مرض میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں اور پھر ادویات ارسال کرتے ہی ڈاکٹر صاحب منظر عام سے غائب، کچھ تو مریض کے مشورہ پوچھنے پر آپے سے باہر آجاتے، کئی مریض اس طرح خوار ہو رہے۔ ایسے سوشل میڈیا خود ساختہ ڈاکٹر جو نہ صرف ان عظیم کرداروں جو دن رات عوام کی خدمت کر رہے، کے لیے ناسور ہیں ، بلکہ انسانی جانوں کے بھی قاتل ہیں۔ انہیں خود ساختہ معالج یا نیم حکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عطائی انسانیت کے خادم نہیں’ ہادم‘ ہیں اور وہ سماج کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہیں۔
یہ عام بات ہے کہ غریب جاہل ہیں اس وجہ سے ان کے اشتہارات سے متاثر ہوکر ان سے ادویات منگواتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ شدید غربت کے مارے لوگوں کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں کہ وہ سائنسی علاج کروا سکیں۔ WHOکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں % 82لوگوں کے پاس سائنسی علاج کیلئے درکار رقم ہی موجود نہیں۔ چند سال پہلے PMDCکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 600000سے زائد غیر سائنسی علاج کرنے والے دن رات غریب عوام کی صحت برباد کر رہے ہیں۔ صرف کراچی میں اندازاً 70000سے زائد لوگ غیر سائنسی طریقہ کار سے علاج کر رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اتائی، ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔ اس کی جملہ خوبیاں یہ ہیں کہ وہ ہر وقت دستیاب ہے، کم فیس میں علاج معالجہ کر دیتا ہے، وہ کئی پشتوں سے خاندانی معالج ہوتا ہے، خاندانی بیماریوں سے آشنا ہوتا ہے، اس کے ہاتھ میں بھی خصوصی شفاء ہے، وہ گھر کی دہلیز پر ہی موجود ہے، وہ کئی ڈاکٹروں کے تجربات رکھتا ہے۔ صحت مند معاشرہ ہی قوموں کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ جدید دُنیا میں جہاں ایک طرف صحت عامہ کے شعبہ میں ٹیکنالوجی کی بھرمار ہے وہاں دوسری طرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں عطائیت کا ناسور تیزی سے پھیل رہا ہے۔
آج ہم جس دُنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں علم اور بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی کا راج ہے۔ کسی بھی ملک کے باسیوں کیلئے بنیادی ضروریاتِ زندگی ایک خوشگوار اور بامقصد، صحت مند زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہیں اور ان میں کلیدی کردار صحت اور تعلیم کا ہے۔ ایک جسمانی نشوونما کیلئے اہم ہے تو دوسری ذہنی نشو نما کیلئے نا گزیر۔ سماج اپنے ارتقائی عمل میں مختلف مرحلوں میں سے گزرتا ہے اور بنیادی ضروریات کا حصول سماج کی مادی بنیادوں، نظامِ پیداوار اور پیداواری رشتوں سے انگنت تانوں بانوں سے جڑا ہوا ہے۔جب صحت کا نام آتا ہے تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ ڈاکٹر ز کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ جدید دُنیا میں سترھویں اور اٹھارویں صدی میں برطانیہ میں اتائیت کو بہت زیادہ فروغ ملا۔
1830ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے 1300کے قریب ادویات کی ایسی فہرست بھی جاری کی جو اتائیت کے زمرے میں استعمال ہو رہی تھیں پاکستان میں اتائی ڈاکٹر کیلئے ’ نیم حکیم‘ کا لفظ زیادہ مشہور ہے پاکستانی معاشرے کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہاں ملک میں اتائیت کا ناسور بھی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اتائیت کا تیزی سے پھیلتا ہوا یہ مہلک جال صحت مند پاکستانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جعل سازوں، نیم حکیموں، ناتجربہ کار سٹاف، جاہل ڈسپنسرز اور فراڈ ڈاکٹروں کی بھرمار تو الگ بات، اب سوشل میڈیا کے ڈاکٹروں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ۔ فیس بکی حکیم اور ہومیو پیتھک پروفیسر اپنے انداز میں عوام میں بیماری بانٹ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو میڈیا پر اشتہارات بھی دیتے ہیں جن میں ہیپاٹائیٹس اور شوگر سمیت دُنیا بھر کی تمام بیماریوں کے مکمل علاج اور جڑ سے خاتمہ کرنے کے دعویٰ کئے جاتے ہیں۔ اور پھر ’’ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ‘‘ کی مصداق ہمارے ہاں بے شمار لوگ اتائیت کو ہی اپنا پیشہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک سنگین جرم اور انسانی جانوں سے کھلواڑ ہے۔ پسماندہ علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے جب لوگ اتائی ڈاکٹروں، حکیموں کے پاس جاتے ہیں تو مریض ٹھیک ہونے کی بجائے دیگر کئی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور کئی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹر حضرات دیہاتوں میں جانا پسند نہیں کرتے اور وہاں دیہی مراکز صحت دوپہر 2بجے کے بعد بند ہو جاتے ہیں، ایسے میں کسی ایمرجنسی کی صورت میں مریض کہاں جائیں ، وہ ان اتائیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
کب پاکستان کے باسیوں کو مستند معالجین مہیا ہوں گئے اور کب وطن عزیز کو اتائی معالجوں سے چھٹکارا ملے گا۔ اتائی ڈاکٹرز میں سب سے زیادہ تعداد دائیوں کی ہے جو گائنا کالوجسٹ کا روپ دھار کر غریب خواتین کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہی ہیں دوسرے نمبر سوشل میڈیا موجود ڈاکٹروں کی ہے اور اس کے بعد جعلی حکیموں کا نمبر آتا ہے جو بانجھ پن کے علاج کا جھانسہ دیکر شہریوں سے ہزاروں روپے بٹورنے میں مصروف ہیں۔ مریض ان اتائیوں سے علاج کروا کر اپنی زندگیاں تباہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اتائیت ایک معاشرتی ناسور ہے اور اس سے منسلک افراد انسانی جانوں کی موت کے سوداگر ہیں۔ اتائیت کی حوصلہ شکنی کرتے ہو ئے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جا نی چاہیے ۔ تاکہ انسانی زندگیوں سے کھلواڑ بند ہونے کے ساتھ ہی اتنے مقدس پیشہ کی عزت و توقیر پر حرف نہ آئے۔ صحت مند معاشرہ ہی ترقی کا ضامن ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ کسی اچھے مستند معالج سے اپنا علاج کرائیں۔
لباسِ خضر میں پھرتے ہیں ہزاروں راہزن
گر دُنیا میں رہنا ہے تو پہچان پیدا کر
عابد ضمیر ہاشمی

جواب دیں

Back to top button