جنگ جاری ہےشہر خواب ۔۔۔
جنگ جاری ہے
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
حضرت انسان خالق اکبر کی قدرت کاملہ کا شاہکار ہے۔ یہ وہ واحد مخلوق ہے جسے بنا کر اس نے اپنی اس تخلیق پر فخر کیا ہے۔ اسے اس نے اشرف قرار دے کر فرشتوں کا قبلہ بنایا اور سجدے کا حکم دے کر اس کی عظمت کا اعلان فرمایا۔ انسانی جسم پر نظر ڈالی جائے تو کسی عجوبے سے کم نہیں ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں’’ یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے، گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے، ہڈی سے سنتا ہے اور سوراخ سے سانس لیتا ہے‘‘۔
انسانی وجود پیدائش سے موت تک حالت جنگ میں ہوتا ہے ۔ یہ کسی تاریک رزم گاہ کی طرح ہے ۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس جنگ میں اس کا ساتھ کوئی نہیں دیتا ۔ کہتے ہیں سہارے کمزور کر دیتے ہیں ۔ سو جس نے بھی سہارا لیا بے بے سہارا ہو کر رہا ۔ اس کریم رب کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ اس نے وہ ساری چیزیں ہمارے اندر رکھ چھوڑی ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی زندگی کو تباہی سے بچا سکتا ہے اور بچاتا ہے۔ یہ دفاعی نظام زندگی کی ضمانت ہوا کرتا ہے۔ یہ ممکنہ خطرات سے بچاتا ہے۔ بیماری کے خلاف سینہ سپر ہوتا ہے۔ جسم میں کسی خرابی کا اظہار کرنا ہو تو یہ درد پیدا کرتا ہے۔ کسی بیماری کی بھنک پاتا ہے تو جسم کا درجہ حرارت بڑھا کر اس کے خلاف عملی جہاد کا آغاز کرتا ہے۔ بیرونی خطرہ کچھ زیادہ شدید ہو اور اس سے بچائو کی کوئی اور صورت نہ ہو تو انسان کو بھاگ جانے پر اکسانا ہے۔ گویا یہ ہر ہنگامی حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا لشکر ہے جو کبھی غافل ہوتا ہے نہ سوتا ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنا اس کا کام ہوتا ہے۔ یہ سیاست کرتا ہے نہ اس کھیل میں کوئی حصہ ڈالتا ہے۔ یہ نگران ہے ، باڈی گارڈ ہے اور بس۔
اب جارحیت خواہ اندرونی یا بیرونی یہ اس کے خلاف علم جہاد بلند کر دیتا ہے۔ اور تب تک لڑتا رہتا ہے جب تک مدمقابل کو زیر نہیں کر لیتا ۔ اگر اتنا کمزور پڑ جائے کہ اپنی ذمہ داری پوری طرح نباہ نہ پائے تو اسے بیرونی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوا یا دعا کی مدد سے یہ پھر سے طاقت پکڑ لیتا ہے اور دشمن کو دھول چٹا دیتا ہے۔
اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم پڑے گا کہ انسان کا بیماری یا لاغر ہو جانا اس کے روز کا معمول نہیں ہے ۔ جب وہ اپنی عقل و فہم میں لا کر احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے تو عموماً بیماروں سے بچا رہتا ہے ۔ ہنگامی صورت حال کا سامنا اسے اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے ۔
اس بات کو یہیں روک کر پاک بھارت کشیدگی کا ذکر کرتے ہیں جو کہ اسی طرح ایک ہنگامی صورتحال تھی جیسی انسانی جسم کے بیماری ہوتی ہے۔ ہم نے اللہ کی مدد، چینی ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی مہارت اور ایمانی طاقت کے سبب مرد میدان رہے۔ آج کل ہر جگہ اسی کا شور ہے اور پوری دنیا میں پاکستانی پائلٹوں کی دھوم ہے۔ کامران مسیح جیسے سپوتوں نے عالمی برادری میں پاکستان کا نام آسمانوں کی طرح اونچا اور چاند ستاروں جیسا روشن کر دیا ہے۔
اب الحمدللہ ہنگامی حالت پر سیز فائر کا پردہ پڑ چکا ہے مگر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہمارا ازلی دشمن ہمیں معاشی جنگ میں ہرانا چاہتا ہے۔ اس کی نظر میں جنگ میں سب جائز ہے، کالا باغ ڈیم اس کی ادنی سی مثال ہے۔ اس نے کروڑوں کی سرمایہ کاری اور اس سدا بہار منصوبے کو ہمیشہ کے لیے فائلوں میں دفن کر دیا۔ اس کا جہاں پر اور جہاں تک بس چلتا ہے وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے۔ کوئی موقع ضائع نہیں کرتا بلکہ موقع پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ سو یہ کہنے میں مجھے ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ جنگ جاری ہے۔ اصل جنگ کبھی نہیں رکتی، کبھی بھی نہیں۔ دشمن کبھی دوست نہیں بنتا۔ بھارت جیسا تو کبھی بھی نہیں۔
اب ہم سب کا بحیثیت قوم یہ فرض ہے کہ ہم اس معاشی جنگ میں اپنی ریاست کا بھرپور ساتھ دیں کہ ہمارا حریف ہم سے کئی گنا بڑا اور طاقتور ہے۔
آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جنگوں کی ہیت اب بدل چکی ہے۔ اب ہر ملک اپنی معیشت کی مضبوطی میں اپنی بقا دیکھتا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے چنگل میں ہیں۔ وہ ہم پر مہنگائی کے راکٹ برسا رہا ہے۔ ہمارے حکمران غلام بے دام بن چکے۔ وہ اپنی کرسی بچانے اور یہ تمغہ گلے میں ڈالنے کے لیے اتاولے ہو رہے ہیں کہ انھوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ قوم کو کچومر نکل چکا، کسان کا تیل نکل چکا، تنخواہ دار طبقے کا حوصلہ ٹوٹ چکا مگر ہماری حکومت ہے کہ اعلیٰ کارکردگی کے اشتہارات چھپوائی پھر رہی ہے۔ جس طرح جسم کو بیماری سے بچانے کے لیے ضروری احتیاطیں کرنا پڑتی ہے بالکل اسی طرح ملک و قوم کو عبرت ، مہنگائی، کرپشن اور قرض کی ذلت سے بچانے کے لیے دیوانہ وار کاوشیں کرنا پڑتی ہیں ۔ اس میدان میں ہم کب سرخ رو ہوں گے ۔ کب ہم مرد میدان ٹھہریں گے۔ وہ وقت کب آئے گا جب ہم آئی ایم ایف کی غلامی سے آزاد ہوں گے۔
وہ دن کب آئیں گے کب کسان کے چہرے پر مسکان آئے گی
جب محنت کش کی محنت رنگ لائے گی، اس کے گھر میں بھی خوش حالی آئے گی۔
وہ دن کب آئیں گے جس کے احمد ندیم قاسمی نے دعا کی تھی:
خدا کرے کہ مرے اک بھی وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
وہ دن کب آئے گا جب ہماری قوم کا کوئی بھی بچہ مقروض نہیں رہے گا۔ جیسے وہ آزاد پیدا ہوا تھا ، آزاد فضا میں سانس لے گا۔
اس جنگ کے لیے کمر ہمت باندھ لیجئے کہ جنگ ہماری ہے اور ہم سب نے مل کر لڑنی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس جنگ میں بھی سرخ رو فرمائے آمین۔
اقبال ہمیں کب کا رستہ دکھا چکے
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا!
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہاںگیری
یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں





