پاکستان کی برتری، جنگ کے اصول اور بھارت کی رسوائی

تحریر : طارق خان ترین
22 اپریل2025ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں26 سیاحوں کی ہلاکت نے ایک بار پھر بھارت کے ماضی کے خودساختہ ڈراموں کو زندہ کر دیا۔ ابھی لاشیں ٹھنڈی نہ ہوئی تھیں کہ دہلی نے حسب روایت بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر دھر دیا۔ بھارتی میڈیا نے شور و غوغا برپا کر کے ایک بار پھر مظلومیت کا نقاب اوڑھ لیا، مگر دنیا اب ان جھوٹے بیانیوں سے واقف ہو چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے سمجھوتہ ایکسپریس (2007)، ممبئی حملے (2008)، اُری حملہ (2016)اور پلوامہ حملہ (2019)جیسے واقعات کو سیاسی فائدے، انتخابی مفادات اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا۔
بھارتی سیکیورٹی اداروں کی اپنی رپورٹیں، عدالتی بیانات اور صحافیوں کی تحقیقات ان حملوں کو فالز فلیگ آپریشنز قرار دے چکی ہیں۔ مثال کے طور پر، سمجھوتہ ایکسپریس حملے میں بھارتی فوجی کرنل پروہت اور سوامی آسیم آنند جیسے انتہا پسند ملوث نکلے، جنہوں نے بعد میں عدالت میں اعترافِ جرم بھی کیا۔ ممبئی حملے کے بعد بھی بھارتی پولیس افسر ستیِش ورما نے اعتراف کیا کہ بعض دہشت گرد کارروائیاں حکومتی منظوری سے کی گئیں۔ پلوامہ واقعے پر بھارتی اینکرز کے لیکڈ میسجز سے واضح ہو گیا کہ یہ سب سیاسی فائدے کے لیے منظم کیا گیا تھا۔
اسی تسلسل میں پہلگام حملے کو دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حملہ بھی ایک پلاننگ کا حصہ تھا، عالمی برادری کی ہمدردیاں سمیٹنے، پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لانے اور بھارت کے ہندوتوا ایجنڈے کو اندرونِ ملک تقویت دینے کے لیے۔ پاکستان نے اس حملے پر نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ نہ صرف اس کی مذمت کی، بلکہ آزاد بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش بھی کی، جس سے پاکستان کا سفارتی قد بلند ہوا۔
29 اپریل کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ انڈین آرمی کے ایک حاضر سروس میجر اور پاکستان میں موجود دہشت گرد کے درمیان ہونے والی آڈیو لیکس نے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا۔ بلوچستان، کراچی اور لاہور میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی پشت پناہی بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا زندہ ثبوت بن گئی۔
مگر بھارت کا اصل چہرہ اس وقت سامنے آیا جب 7مئی کی رات اُس نے پاکستان کے شہری علاقوں پر میزائل حملے کیے۔ یہ حملے مسجدوں، مدارس، عورتوں اور بچوں پر کیے گئے۔ بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان شاید خاموشی اختیار کرے گا، لیکن وہ بھول گیا کہ 27فروری 2019ء کا پاکستان اب مزید بدل چکا ہے۔
پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی نہ صرف فوری تھی بلکہ تباہ کن بھی۔ دشمن کے تین رافیل، ایک مگ، اور ایک ایس یو 30 طیارے تباہ کیے گئے۔ بھارتی چیک پوسٹوں پر پاکستانی افواج کا دباو اتنا شدید تھا کہ وہ سفید پرچم لہرانے پر مجبور ہو گئے۔ بھارت نے اسرائیلی ساختہ خودکش ڈرونز کا استعمال کیا، لیکن پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے انہیں بھی راکھ کر دیا۔
10 مئی کو جب بھارت نے دوبارہ میزائل حملے کیے، تو پاکستان نے ’’ آپریشن بنیان مرصوص‘‘ کا آغاز کیا۔ چند ہی گھنٹوں میں بھارت کے دس بڑے فضائی اڈے مکمل طور پر مفلوج ہو گئے۔ بھارتی قیادت، خاص طور پر نریندر مودی، سرنڈر موڈ میں چلی گئی۔ امریکا، جو پہلے کہتا تھا کہ ’’ یہ ہماری جنگ نہیں‘‘، اچانک بھارت کی سلامتی کے لیے میدان میں کود پڑا۔ لیکن پاکستان نے دنیا پر واضح کر دیا کہ ہماری سرزمین، ہماری خودمختاری، اور ہمارے نظریات پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بھارت سے جب کچھ نا ہوا تو اپنوں کو ہی انہوں اپنے نشانے پر رکھ دیا۔ بھارت میں مودی سرکار کی متعصبانہ پالیسیوں نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ سکھوں کو بھی ریاستی جبر کا نشانہ بنایا ہے، جس کا تازہ ثبوت کرتارپور راہداری کی بندش ہے۔ پاکستان کی طرف سے سکھوں کے لیے مذہبی آزادی اور سہولت کی فراہمی، خصوصاً کرتارپور راہداری کو جنگی حالات میں بھی کھلا رکھنا، مذہبی احترام کا مظہر ہے، پاکستان نے کبھی بھی عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ حتیٰ کہ جنگی حالات میں بھی پاکستان نے کرتارپور راہداری کو بند نہیں کیا۔ جب کہ بھارت نے اس راہداری کو بند کرکے سکھوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے۔ یہ اقدام دراصل سکھوں کو اپنے مذہب سے جُڑنے کی سزا دینے کی کوشش ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتی ریاست اقلیتوں کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک برت رہی ہے۔ سکھوں کے ساتھ ہونے والا یہ رویہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بھارت کے داخلی تضادات کو بھی بے نقاب کرتا ہے، جہاں مودی سرکار کی ہندو انتہاپسندی پورے خطے کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
یہ محض ایک فوجی جنگ نہیں تھی۔ یہ ایک نظریاتی معرکہ تھا، جس میں جھوٹ کے مقابلے میں سچ، ظلم کے مقابلے میں عدل، اور باطل کے مقابلے میں ایمان نے فتح پائی۔ بھارت نے عورتوں، بچوں، مدارس اور مساجد کو نشانہ بنایا، یہ محض جغرافیائی حملہ نہیں بلکہ تہذیبی اور عقیدے پر حملہ تھا۔ لیکن جس رب نے بدر میں چند صحابہ کو ہزاروں پر غالب کیا، وہی رب آج پاکستان کے ساتھ تھا۔ ترکیہ، آذربائیجان، سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، قطر، اور کئی دیگر مسلم ممالک نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اتحاد سفارتی نہیں بلکہ ایمانی، نظریاتی اور برادرانہ تھا۔ پاکستانی عوام، فوج، سیاستدان، میڈیا سب ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہو گئے: دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہے۔
آج کا پاکستان صرف ایک ریاست نہیں، ایک نظریہ ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے جو دشمن کو اُس کی زبان میں جواب دینا جانتا ہے۔ آج کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں پھر سے گونج رہا ہے، اور بھارت کا جھوٹ دنیا کے سامنے ننگا ہو چکا ہے۔ پاکستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ جب بھی کوئی طاقت ہمارے عقیدے، غیرت، یا سرزمین کو للکارے گی، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہم جواب دیں گے، ایسا جواب جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔







