
تین اسرائیلی عہدے داروں نے منگل کے روز انکشاف کیا کہ اسرائیلی افواج نے حماس کے عسکری ونگ (القسام بریگیڈز) کے سربراہ محمد السنوار کو جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ایک اسپتال کے نیچے واقع خفیہ پناہ گاہ میں فضائی حملے کا نشانہ بنایا۔
ایک اسرائیلی عہدے دار نے انگریزی نیوز ویب سائٹ "axios” کو بتایا کہ حکومت کو انٹیلی جنس معلومات موصول ہوئیں جن سے اس پناہ گاہ میں السنوار کی موجودگی کا پتا چلا، اور کارروائی بہت جلدی عمل میں لائی گئی۔
نتائج غیر واضح ہیں
تاہم عہدے دار نے مزید کہا کہ حملے کے نتائج ابھی تک غیر واضح ہیں، اور اسرائیلی فوج اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ آیا حماس کے دیگر اعلیٰ عسکری رہنما بھی اس پناہ گاہ میں السنوار کے ساتھ موجود تھے یا نہیں۔
عہدے دار کے مطابق ایسی کوئی انٹیلی جنس اطلاع موجود نہیں جس سے معلوم ہو کہ السنوار اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ "اگر یرغمالیوں کو نقصان پہنچنے کا معمولی خدشہ بھی ہوتا تو ہم یہ حملہ نہ کرتے۔”
اسرائیلی عہدے داروں نے مزید بتایا کہ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو اس کارروائی سے پہلے مطلع نہیں کیا، کیوں کہ ابتدائی انٹیلی جنس اطلاعات اور فوری حملے کے درمیان وقت بہت کم تھا
کاری ضرب
مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق اگر محمد السنوار کی ہلاکت کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو یہ حماس کے لیے ایک اور کاری ضرب ہو گی، کیوں کہ وہ اپنے بھائی یحییٰ السنوار اور اپنے پیش رو محمد الضیف کے بعد عسکری قیادت سنبھال چکے تھے، جنھیں اسرائیل پہلے ہی ہلاک کر چکا ہے۔ یہ تینوں رہنما 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز تھے
اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے خان یونس میں یورپی اسپتال کے نیچے زیر زمین قائم حماس کے ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول مرکز پر حملہ کیا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس حملے میں کم از کم 6 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب منگل ہی کے روز ایک اسرائیلی وفد دوحہ روانہ ہوا تا کہ حماس کے ساتھ قیدیوں کی رہائی سے متعلق کسی ممکنہ معاہدے پر بات چیت کی جا سکے
اسی دوران حماس کے دو عہدے داروں نے انکشاف کیا کہ دوحہ میں امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، اور انھوں نے "پیش رفت” کی نشان دہی کی ہے