
آج یکم مئی ہے۔ ملک بھر میں یومِ مزدور کی چھٹی ہے۔ دفاتر بند، بینک بند، اسکول بند۔ ہر طرف چھٹی کا سماں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جن کے نام پر یہ چھٹی منائی جاتی ہے٫ مزدور.
ہم نے آج دن بھر لاہور اور مضافات کے مختلف علاقوں میں محنت کشوں سے ملاقات کی۔ ان سے پوچھا کہ یوم مزدور آپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ ان کی زندگی میں یہ دن کوئی بدلاؤ لاتا ہے یا نہیں؟ ان سب نے جہان پاکستان ڈیجیٹل سے کھل کر بات کی٫ سادہ، سچّی، اور کہیں کہیں کڑوی باتیں۔
سب سے پہلے ہماری ملاقات اسلم سے ہوئی، جو گلبرگ میں ایک زیرِ تعمیر پلازہ کی چھت پر کام کر رہا تھا۔ سر پر کپڑا باندھے، گرد و غبار میں اٹا ہوا، اسلم بیلچے سے سیمنٹ ملا رہا تھا۔ پوچھنے پر مسکرایا اور بولا
"چھٹی؟ وہ کیا ہوتا ہے بھائی؟ صبح چھے بجے آتا ہوں، شام چھے بجے جاتا ہوں۔ بیوی بچوں کو دو وقت کا کھانا دینا ہے۔ ایک دن کام نہ کرو تو چولہا ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔”
جب ہم نے اسے بتایا کہ آج یومِ مزدور ہے، وہ حیرت سے بولا،
"پچھلے سال بھی یہی دن آیا تھا، اُس دن بھی میں یہی کام کر رہا تھا۔ شاید اگلے سال بھی یہی ہو۔”
کچھ ہی فاصلے پر رضیہ ہمیں ملی، جو ایک امیر گھرانے میں گھریلو ملازمہ ہے۔ آج بھی حسبِ معمول وہ صبح سات بجے گھر سے نکلی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ چھٹی ملی؟ کہنے لگی٬ "بیٹی نے صبح کہا: اماں، آج تو ہماری چھٹی ہے نا؟
میں نے کہا: ہاں تمھاری ہے، میری نہیں۔
میڈم نے کہا تھا آج جلدی آ جانا، مہمان آ رہے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیں، یہ دن مزدوروں کے لیے ہے یا اُن کے لیے جو ہمیں کام پر بلاتے ہیں؟”
رضیہ کی آواز میں دکھ بھی تھا، بیزاری بھی۔ پنجابی میں کہنے لگی،
"ہم غریبوں کے دن بس کیلنڈر میں ہوتے ہیں، زندگی میں نہیں۔”
ہماری اگلی منزل لاہور کی کینال روڈ سے ملحقہ علاقے میں چند ایکڑ پر پھیلے گندم کے کھیت تھے، جہاں علی رضا نامی نوجوانفصل کاٹ رہا تھا۔ گرمی عروج پر تھی، مگر وہ بغیر ٹوپی کے، مسلسل جھکتا اور سیدھا ہوتا رہا۔ ہمارے پوچھنے پر بولا٫
"بھائی، مزدور ہوں… بیمار ہو جاؤں یا زخمی، کام تو کرنا ہے۔
یوم مزدور؟ ہم نے تو کبھی عید بھی نہیں منائی۔
بس ایک بات ہے۔ جب بخار میں بھی کھیت آتا ہوں، تب یاد آتا ہے کہ میں مزدور ہوں۔”
وہ رکا، پھر بولا:
"اصل بات سنو، مزدور کا دن وہ ہوگا جب اس کو کام کے ساتھ عزت، آرام اور اجرت بھی پوری ملے گی۔
فیروز پور روڈ پر ایک ہوٹل میں ویلیم نامی ویٹر سے بات ہوئی۔ وہ ایک ہاتھ میں ٹرے، دوسرے ہاتھ میں رسیدیں لیے بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ ہم نے روک کر پوچھا: آج چھٹی نہیں ملی؟ ہنسا، مگر تھکاوٹ کے ساتھ بولا۔
"صاحب، چھٹی یہاں مالکان کو ملتی ہے۔ آج تو رش اور زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ گھروں سے نکلتے ہیں، ہوٹلوں میں آتے ہیں، ہمیں تو دوگنا بھاگنا پڑتا ہے۔
بچپن میں سوچا تھا، بڑا ہو کر زندگی سنور جائے گی۔
اب سمجھ آیا، مزدور کے خواب بھی مزدوری کرتے ہیں۔”
یوم مزدور کے دن کی یہ تصویریں، یہ کہانیاں، یہ سچائیاں٬ سب ایک ہی سوال کرتی ہیں: کیا یہ دن واقعی اُن کے لیے ہے جن کے خون پسینے سے یہ ملک کھڑا ہے؟ یا یہ دن بھی محض تقریروں، سوشل میڈیا پوسٹوں اور رسمی چھٹی کا بہانہ بن چکا ہے؟







