دنیا

روسی صدر کی امریکہ کو نایاب معدنیات کے ذخائر تک رسائی کی پیشکش

روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کو روس اور ماسکو کے زیرِ قبضہ یوکرین کے علاقوں میں موجود نایاب معدنیات کے ذخائر تک رسائی دینے کے لیے تیار ہیں۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین پر امریکی حمایت کے بدلے نایاب معدنیات کے ذخائر تک رسائی کی مانگ کر رہے ہیں۔ یوکرین کے ایک وزیر کے مطابق امریکہ کو ان ذخائر تک رسائی کے ایک معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

سوموار کے روز سرکاری ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پوتن کا کہنا تھا کہ وہ روس کے ’نئے علاقوں‘ میں کان کنی سمیت مشترکہ منصوبوں میں امریکی شراکت داروں کو وسائل کی ’پیشکش‘ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ روس کے ’نئے علاقوں‘ سے ان کی مراد مشرقی یوکرین کے وہ حصے ہیں جو یوکرین پر حملے کے بعد سے ماسکو کے قبضے میں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان المونیم کو نکالنے اور اس کی قیمت کو مستحکم رکھنے کی غرض سے امریکہ کو اس کی فراہمی پر بھی بات ہو سکتی ہے۔

روسی صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یوکرین کے مابین نایاب معدنیات کے حوالے سے ممکنہ معاہدہ ان کے لیے تشویوش کا باعث نہیں کیونکہ روس کے پاس ’اس طرح کے یوکرین سے کہیں بڑے ذخائر موجود ہیں‘۔

منگل کے روز روسی حکومت کے ترجمان ڈیمتری پیسکوو نے صحافیوں کو بتایا کہ اس تجویز سے تعاون کے کافی وسیع امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ان نایاب معدنیات کی ضرورت ہے اور روس کے پاس یہ وسیع مقدار میں موجود ہیں۔

نایاب معدنیات کیا ہیں اور امریکہ ان کو کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟

نایاب زیرزمین معدنیات جنھیں ’ریئر ارتھ‘ کہا جاتا ہے 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جن کا جدید ٹیکنالوجی میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ معدنیات سمارٹ فون، کمپیوٹر، طبی سامان اور کئی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔

امریکہ کی ان معدنیات تک رسائی کی خواہش کی ایک بڑی وجہ چین سے مقابلہ ہے جو دنیا میں ایسی نایاب معدنیات کی رسد اور فراہمی کا بڑا کھلاڑی ہے۔

گزشتہ دہائیوں کے دوران چین نایاب معدنیات نکالنے اور انھیں پروسیس کرنے میں عالمی سطح پر بہت آگے نکل چکا ہے اور اس کے پاس ناصرف 60 سے 70 فیصد تک کی پروڈکشن موجود ہے بلکہ 90 فیصد پروسیسنگ بھی چین کے پاس ہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button