تنخواہ داروں پر ٹیکس بوجھ کم کرنے کا حکومتی عندیہ

موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد شب و روز محنت کو اپنا شعار بنایا۔ خصوصاً وزیراعظم شہباز شریف کا انتھک محنت و لگن کے ساتھ ملک و قوم کو مسائل و مشکلات کے بھنور سے نکالنے میں کلیدی کردار رہا۔ گزشتہ برس جب عام انتخابات عمل میں آئے تھے تو اتحادی حکومت قائم ہوئی تھی، جس کی سربراہی شہباز شریف کو ملی تھی، اُس وقت اقتدار کسی طور پھولوں نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج تھا، ملک و قوم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے تھے، مہنگائی کے نشتر غریبوں پر بُری طرح برس رہے تھے، معیشت کا پہیہ جام سا تھا، صنعتیں تیزی سے بند ہورہی تھیں، بے روزگاری کے ہولناک سائے بے شمار گھرانوں میں فاقوں کا باعث بنتے تھے۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے توقیری سے گزر رہا تھا۔ ترقی کا سفر رُکا ہوا تھا۔ شہباز حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تیزی سے بہتری کے لیے کاوشیں کیں۔ معیشت کی سمت کا درست تعین کیا، اس کی بنیادیں مستحکم بنائیں، صنعت کاروں اور کاروباری لوگوں کو آسانیاں فراہم کی گئیں، جس کے نتیجے میں معیشت اور صنعتوں کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا۔ پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام آیا۔ مہنگائی میں بہت بڑی کمی دیکھنے میں آئی۔ عوام کی حقیقی اشک شوئی ہوسکی۔ گرانی سنگل ڈیجیٹ پر آگئی۔ اسی طرح شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح سے نیچے آکر 12فیصد پر آچکی ہے۔ یہ سب حکومت کے راست اقدامات کے طفیل ممکن ہوسکا ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہوا جب کہ درآمدات میں کمی آئی۔ بیرونِ ممالک کی جانب سے سرمایہ کاریوں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اسی طرح حکومت نے ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے نتیجے میں ناصرف ٹیکس ریٹرن فائلز کرنے والوں کی تعداد بڑھی بلکہ ٹیکس آمدن میں بھی اضافہ ہوا، لیکن اب بھی کچھ فیصد متمول شخصیات ٹیکس ادائیگی سے گریزاں رہتی ہیں، جن کا تذکرہ گزشتہ دنوں حکومتی سطح پر بھی ہوتا رہا۔ اس وقت تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے، جس کی مشکلات کا حکومت کو بخوبی اندازہ ہے اور وہ اس پر ٹیکس بوجھ میں کمی لانے کی کوششوں میں ہے۔ اس کا عندیہ بھی گزشتہ روز دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کا شکر ہے معیشت کی بنیاد بن گئی، اب ہمیں پائیدار گروتھ کی طرف جانا ہے، اوورسیز پاکستانیوں کی ناراضی کی باتوں میں حقیقت نہیں، ملک میں ریکارڈ ترسیلات زر آرہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ نے لاہور میں میراتھن کے آغاز سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ اچھے مقام پر کھڑی ہے، معاشی اشاریے درست، کرنسی میں استحکام ہے اور پالیسی ریٹ بھی کم ہوا ہے، ہماری معیشت کی بنیاد بن گئی ہے، اب ہمیں پائیدار ترقی کی طرف جانا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس سال کے بجٹ کی تیاری شروع کردی ہے۔ بجٹ سے پہلے ہی کاروباری افراد سے ملاقاتیں شروع کردی ہیں، ایف بی آر میں اصلاحات پر بھی کام کررہے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا بوجھ ہے، آنے والے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کا سوچیں گے۔ ان کا کہنا تھا ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لارہے ہیں، تاکہ لوگ ٹیکس پسند کریں، مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور سیلری کلاس طبقے پر بوجھ پڑا ہے، تمام شعبوں کو معیشت میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیکس نظام میں بہتری آئی ہے، رئیل اسٹیٹ میں بھی ٹیکس بہتری آئی ہے، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سٹہ بازی نہیں چلنے دیں گے، اور نہ ہم سپورٹ کریں گے، تعمیراتی انڈسٹری کی سپورٹ کے لیے کام کررہے ہیں۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا سعودی عرب، دبئی اور واشنگٹن سے ہوکر آیا ہوں، سب سے ملاقاتیں ہوئیں، اوورسیز میں کوئی ناراضی نہیں ہے، ہم اوورسیز پاکستانیوں کے شکر گزار ہیں۔ ملک میں 35ملین ڈالر تک زرمبادلہ پہنچ چکا ہے۔ وزیر خزانہ نے امید ظاہر کی کہ رواں سال ترسیلات زر بڑھیں گی اور گزشتہ سال سے زیادہ ہوں گی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں بھی بتدریج اضافہ ہورہا ہے، حکومت جو کررہی ہے اصل کام پرائیویٹ سیکٹر کو کرنا ہے، اس ملک کو پرائیویٹ سیکٹر نے ہی آگے لے کر جانا ہے، ہمیں پالیسی فریم ورک اور پالیسی کے تسلسل سے پرائیویٹ سیکٹر کو سپورٹ کرنا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ کم کرنے کا حکومتی عندیہ ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہے۔ اس کی ضرورت بھی شدّت سے محسوس کی جارہی ہے۔ حکومت ٹیکس اصلاحات کے لیے کوشاں ہے، اس کے ضرور آئندہ وقتوں میں مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور جو چند فیصد لوگ ٹیکس باقاعدگی سے ادا نہیں کررہے، وہ جلد ٹیکس دہندگان میں شامل ہوں گے۔ اوورسیز کے حوالے سے وزیر خزانہ کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ اوور سیز کی ملک سے دُور رہنے کے باوجود دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں، وہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اُن کی جانب سے ریکارڈ ترسیلات زر آرہی ہیں۔ آئندہ مزید بڑھنے کا امکان ہے، جس کا اظہار وزیر خزانہ نے بھی کیا ہے۔ غرض حکومتی اقدامات کے طفیل آئندہ وقتوں میں مزید بہتر رُخ اختیار کریں گے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی
پاکستان کی میزبانی میں چیمپئنز ٹرافی کے دلچسپ مقابلے جاری ہیں، لیکن افسوس دفاعی چیمپئن اور میزبان اس میگا ایونٹ سے لگ بھگ باہر ہوچکا ہے، نیوزی لینڈ اور بھارت سے اپنے ابتدائی دو میچوں میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے، اس کی وجہ قومی ٹیم کا ناقص کھیل رہا، بائولرز ذمے داری کا مظاہرہ کر سکے نہ بلے بازوں سے کچھ ہوسکا۔ دور جدید میں ہمارے کھلاڑی پُرانے زمانے کی کرکٹ کھیلتے نظر آئے۔ بائولرز نے کفایتی ثابت ہونے کے بجائے خوب رنز دئیے، مخالف بلے بازوں نے اُن کی بھرپور درگت
بنائی، بلے باز مدمقابل بائولروں کے وار نہ سہہ سکے اور اپنے ابتدائی دونوں میچوں میں ڈھائی سو بھی نہ کر سکے۔ گزشتہ روز پوری قوم کو اُمید تھی کہ پاکستان بھارت کے خلاف اچھے کھیل کا مظاہرہ کرکے ٹورنامنٹ میں واپس آئے گا، لیکن بھارت کے ہاتھوں آسان شکست کے بعد تمام ارمانوں پر اوس پڑگئی۔ ہماری ٹیم تو بھارت کو ذرا مشکل میں بھی نہ ڈال سکی۔ پورے میچ کے دوران بھارت کی گرفت مضبوط رہی۔ ویرات کوہلی نے کیریئر کی شاندار سنچری بناکر اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔242 رنز کا ہدف بھارت نے 43 اوور میں 4وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا۔ دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں قومی ٹیم کے کپتان محمد رضوان نے بھارت کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی پوری ٹیم 49اعشاریہ 4اوورز میں 241رنز بنا کر آئوٹ ہوگئی۔ پاکستان کو پہلا نقصان 41رنز پر بابر اعظم کی صورت میں اٹھانا پڑا جو 23رنز بناکر ہاردک پانڈیا کی گیند کا شکار بنے، اس کے بعد امام الحق 10رنز بناکر رن آئوٹ ہوگئے۔ محمد رضوان 46رنز بنا کر آئوٹ ہوئے جبکہ سعود شکیل 62رنزبناکر پویلین لوٹے، طیب طاہر 4اور سلمان آغا 19رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ ان کے بعد آنے والے شاہین آفریدی بغیر کوئی رن بنائے آئوٹ ہوئے، نسیم شاہ نے 14رنز کی اننگز کھیلی، خوشدل شاہ نے 38اور حارث رئوف نے 8رنز بنائے۔ بھارت کی جانب سے کلدیپ یادیو نے 3، ہاردک پانڈیا نے 2، ہرشیت رانا، اکشر پٹیل اور جڈیجا نے ایک ایک وکٹ لی۔ بھارت کے پہلے آئوٹ ہونے والے کھلاڑی کپتان روہت شرما تھے جنہیں شاہین آفریدی نے بولڈ کیا، روہت شرما 20رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ ان کے بعد شبمن گل 46رنز بنا کر ابرار کے ہاتھوں بولڈ ہوگئے۔ شریاس ایر 56رنز بناکر کیچ آئوٹ ہوئے، انہیں خوشدل شاہ نے آئوٹ کیا۔ ہاردیک پانڈیا 8رنز بناکر شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر کیچ آئوٹ ہوئے۔ اس موقع پر ویرات کوہلی وکٹ پر جمے رہے اور ون ڈے کیریئر کی 51ویں سنچری اسکور کی، انہوں نے 111گیندوں پر 7چوکوں کی مدد سے 100رنز بنائے اور ناقابل شکست رہے۔ شاندار بلے بازی پر انہیں مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔ بھارت نے 242رنز کا ہدف 43اوور میں 4وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا۔ پاکستان کی جانب سے شاہین آفریدی نے 2، ابرار اور خوشدل شاہ نے ایک ایک وکٹ لی۔ اس شکست پر شائقین میں خاصا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس شکست کے بعد پاکستان کا اس میگا ایونٹ میں رہنا ناممکن سا ہوگیا ہے۔ کسی معجزے کی بھی امید نہیں۔ ضروری ہے کہ آئندہ مقابلوں کے لیے ابھی سے موثر حکمت عملی بنائی جائے۔ ٹیم پر بوجھ بنے ہوئے کھلاڑیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ کھلاڑیوں کے انتخاب میں میرٹ کو اوّلیت دی جائے۔ بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنے والے باصلاحیت کھلاڑیوں کو ہی ٹیم میں شامل کیا جائے۔ ٹیم کی بہترین تشکیل کی جانب قدم بڑھائے جائیں۔ کھلاڑی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور آگے کے مقابلوں اور ایونٹس میں اپنا بہترین کھیل پیش کرنے کی کوشش کریں۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ دور حاضر کی جارحانہ کرکٹ کھیلنے کی جانب قدم بڑھائے جائیں۔ دفاعی خول سے باہر نکلا جائے۔





