چولستان کے رہائشیوں نے بے دخلی کے خدشے پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا

چولستان کی دور افتادہ بستی کے 100 سے زائد رہائشیوں نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں سرکاری منصوبے کا راستہ بنانے کے لیے اپنی زمین دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل محمد کامران کے مطابق لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ کے جسٹس عاصم حفیظ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے متعلقہ فریقین سے کل (منگل) تک جواب طلب کرلیا۔
بستی کھیر سر، چک نمبر 176/ڈی بی کے تقریباً 124 رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ حقیقی چولستانی ہیں، اور ان کے آباؤ اجداد کئی دہائیوں سے اس زمین پر آباد رہے، جنہوں نے اسے بنجر ریت کے ٹیلوں سے قابل کاشت زمین میں تبدیل کیا۔
2024 میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے ان ہی فریقین کی جانب سے دائر ایک درخواست کو نمٹا دیا تھا، جب انہیں زمین کی الاٹمنٹ میں انکار کا پہلا حق دیا گیا تھا، جسے نیلامی کے مقصد کے لیے ’کیٹیگری اے‘ میں رکھا گیا تھا
چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو اس زمین کی نیلامی کرنی تھی، جسے درخواست گزار خریدنا چاہتے تھے، درخواست گزاروں نے الزام عائد کیا کہ پنجاب بورڈ آف ریونیو نے چولستان میں 30 ہزار ایکڑ زمین محفوظ کر رکھی ہے، جس میں چک نمبر 176/ڈی بی بھی شامل ہے۔
درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا کہ بورڈ آف ریونیو کو کسی بھی مقصد کے لیے زمین کی منتقلی سے روکا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اور علاقے کے دیگر باشندے غریب لوگ ہیں، جن کے پاس رہائش کی کوئی اور جگہ نہیں، اور زیر بحث زمین کے علاوہ آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہے۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق جسٹس عاصم حفیظ نے لا افسر سے رپورٹ طلب کرلی ہے، جب کہ صوبائی بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بھی آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے







