Editorial

حکومت و اپوزیشن مذاکرات، نیک شگون

ملکی سیاست میں پچھلے کچھ سال کے دوران خاصی خرابیوں نے جنم لیا ہے، جہاں برداشت کا مادّہ مفقود دِکھائی دیا، وہیں زبانیں بھی اخلاق سے عاری نظر آئیں، مخالفین کی پگڑیاں اُچھالنے کی روش اختیار کی گئی، اخلاقیات کو طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا، ایسے ایسے بیانات داغے گئے کہ الامان والحفیظ، بعض عاقبت نااندیشوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر مخالفین سے متعلق مخرب الاخلاق مواد کے ساتھ تصاویر کی بھرمار کے سلسلے جاری رکھے گئے۔ خواتین سیاست دانوں سے متعلق انتہائی گھٹیا مواد کو طول دیا گیا۔ سیاست سے دانش، بردباری، ادب و اخلاق کو دیس نکالا دیا گیا۔ میں نہ مانوں کی ضد پر قائم رہنے کا سراسر نقصان ملک و قوم کو ہوا۔ حالانکہ سیاست میں مسائل کا صائب حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔ ہر مسئلے کا مذاکرات کی میز پر حل نکالنے کو دُنیا بھر میں توقیر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دھرنے، احتجاج، مارچ اور دیگر طریقوں سے خیر ہرگز برآمد نہیں ہوتی، ان میں نقصانات ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ وطن عزیز بدترین معاشی بحران سے دوچار رہا ہے۔ سیاسی بحران کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں سیاسی عدم استحکام کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی۔ شکر کہ، اب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی خوش کُن خبر سامنے آئی ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان باضابطہ مذاکرات شروع ہوگئے۔ مذاکرات اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوئے، تحریک انصاف سے مطالبات پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈز مانگ لیا گیا ہے، کمیٹی کا آئندہ اجلاس 2جنوری کو ہوگا، فریقین نے ابتدائی بات چیت کو مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کوشش ہوگی کہ باہر ہونے والی پیش رفت ان مذاکرات پر اثرانداز نہ ہو جب کہ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ جیل میں قید کارکنوں کے حوالے سے ہم نے معاملہ اٹھایا ہے۔ مذاکرات میں حکومت کی طرف سے اسحاق ڈار، رانا ثناء اللہ ، عرفان صدیقی ، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، علیم خان، فاروق ستار نے شرکت کی جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس نے شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دونوں مذاکرات کمیٹیوں نے خیرسگالی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کو نہایت مثبت پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پارلیمنٹ مسائل حل کرنے کا اہم فورم ہے اور مذاکراتی عمل کو جاری رہنا چاہیے، اپوزیشن کمیٹی نے اپنے ابتدائی مطالبات کا خاکہ پیش کیا، طے پایا گیا کہ اگلی میٹنگ میں اپوزیشن اپنی تحریری طور پر شرائط پیش کرے گی تاکہ یہ دستاویز کی روشنی میں آگے بڑھ سکے، اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں نچھاور کرنے والے شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کرتے ہوئے اس پختہ عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں ہم سب قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، دونوں مذاکراتی ٹیموں نے اسپیکر ایاز صادق کا شکریہ ادا کیا اور حکومتی کمیٹی کے قیام اور مذاکرات کے عملی آغاز کے لیے ان کی کوششوں کو سراہا، باہمی مشاورت طے پایا گیا کہ اگلا مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس 2جنوری کو منعقد ہوگا، اس موقع پر اسپیکر نے فریقین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ باہمی بات چیت سے ہی مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے، اجلاس تعمیری اور مثبت رہا ہے، اپوزیشن نے بہت مثبت طریقے سی گفتگو کی، ماضی، حال اور مستقبل کی باتیں ہوئیں، امید ہے ہم سب مل کر پاکستان کی بہتری کے لیے کام کر سکتے ہیں، اس سے جمہوریت بھی بہتر ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن کا مل کر بیٹھنا ہی جمہوریت کو مضبوط بنائے گا۔ اسد قیصر نے کہا کہ اجلاس میں ہم نے اپنا موقف بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے، عمران خان سمیت تمام قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے مطالبہ سامنے رکھا، ہم چارٹر آف ڈیمانڈ دو جنوری کو پیش کریں گے جبکہ ہم نے عمران خان سے رابطہ استوار کرانے کا مطالبہ کیا، جسے حکومت نے تسلیم کرلیا ہے۔ اسد قیصر نے کہا کہ ابتدائی بات چیت ہوئی، باقاعدہ مذاکرات کا آغاز 2جنوری کو ہوگا۔ اس موقع پر کمیٹی ارکان راجہ پرویز اشرف اور نوید قمر نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ کے فورم پر ہونے والی یہ بات چیت کامیاب رہے گی اور مسائل کا حل بھی نکل آئے گا، ملکی مفاد میں ڈائیلاگ ہی کیے جاتے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بات چیت مثبت ماحول میں ہوئی اور پی ٹی آئی کے مطالبات کی روشنی میں آگے بڑھا جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا آغاز موجودہ حالات میں خوش گوار ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں کی مانند ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ تمام مسائل اور معاملات کا گفت و شنید سے ہی حل نکالا جائے۔ دونوں جانب سے سیاسی دانش، تدبر، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ ناگزیر ہے۔ ملک و قوم کی بہتری کے لیے سیاسی استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستانی معیشت کی صورت حال روز افزوں بہتر ہورہی ہے۔ بیرونِ ممالک کی جانب سے عظیم سرمایہ کاریاں یہاں آرہی ہیں۔ بیرون ممالک کی کمپنیاں بھی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کے حوالے سے قدم بڑھا رہی ہیں۔ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان میں معیشت کی بہتری، گرانی میں کمی اور عوام کی خوش حالی کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں سیاسی استحکام ملک و قوم کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا۔
یومِ قائداعظمؒ اور کرسمس
آج ملک بھر میں دو بڑے ایونٹس کے حوالے سے جوش و خروش عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ 25دسمبر جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم ولادت ہے، وہیں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کا بھی یوم پیدائش ہے۔ اللہ رب العزت نے لوگوں کی اصلاح کے لیے کم و بیش 1لاکھ 24ہزار پیغمبر دُنیا میں بھیجے، جنہوں نے صراط مستقیم پر چلنے کے ساتھ انسانیت اور محبت کے درس دئیے، جن کی تعلیمات ہر دور میں لوگوں کے لیے مشعل راہ رہیں۔ بدقسمتی اور تباہی اُن کا مقدر بنی جو مالک کائنات کی جانب سے اُس کے پیغمبروں کے ذریعے دی گئی تعلیمات سے روگردانی کرتے رہے اور خود کو عقل کل تصور کرتے ہوئے گمراہی کے اندھیروں میں ڈوب کر آخر مٹ گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ تعالیٰ کے عظیم پیغمبروں میں سے ایک ہیں، جن کی تعلیمات میں انسانیت، محبت و بھائی چارہ، برداشت و رواداری وغیرہ جیسی نایاب باتیں شامل تھیں۔ پاکستان میں یہ یوم ہر سال بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں عیسائی برادری کے افراد بڑی تعداد میں بستے ہیں، جن کی تعداد 40لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے اور یہ ملک عزیز کی سب سے بڑی اقلیت بھی گردانی جاتی ہے۔ عیسائی برادری کے تحت حضرت مسیح کا یوم ولادت روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر اُن کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں۔ وطن عزیز کے مسلمان بھی اپنی اقلیتی برادری کے تہوار میں ان کے شانہ بشانہ شریک ہوتے ہیں۔ اُنہیں اس موقع پر مبارک بادیں پیش کی جاتی ہیں۔ سالہا سال سے پاکستان میں اقلیتی برادری کے اس تہوار کے موقع کو روایتی جوش و خروش کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اسی طرح بانیٔ پاکستان کی ملک و قوم کے لیے خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان ایسی عظیم مملکت کا قیام عمل میں آیا، جہاں مسلمان اور اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ قائد اعظمؒ کی آخری آرام گاہ بھی کراچی کے مرکز میں ہی واقع ہے، جسے مزارِ قائد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 25دسمبر کو یومِ پیدائش کی مناسبت سے بابائے قوم کے مزار پر سلامی دی جاتی ہے، اعلیٰ عہدوں پر فائز وفاقی اور صوبائی شخصیات خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے مزار پر حاضری دیتی ہیں جبکہ عوام کی بھی ایک بڑی تعداد اپنے قائد کی عظمت کو سلام کرنے ان کی آخری آرام گاہ کا کا رُخ کرتی ہے، جہاں وہ قائداعظمؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ قائداعظمؒ کی طلسماتی شخصیت کا طرز عمل آئین پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپؒ بڑے مدلل انداز میں پاکستان کی جدوجہد مختلف صورتوں میں زیربحث لائے اور ثابت کیا کہ پُرامن آئینی جدوجہد ہی سب سے بہتر اور درست راستہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ذاتی زندگی کی پروا کیے بغیر مسلمانوں کی خاطر ایک آزاد و خودمختار وطن کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور بالآخر پاکستان کی شکل میں ایک آزاد مملکت کے قیام میں کامیاب رہے۔ انہوں نے عوامی مفاد ات کا خاص خیال رکھتے ہوئے پاکستان کے آئین و قانون میں انصاف کی بالادستی کو اوّلین ترجیح دی۔ آپؒ اُصول پسند شخصیت تھے۔ کام، کام اور صرف کام کے رہنما اصول میں کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ آپ نے قوم کو ایمان، اتحاد اور تنظیم کا درس دیا۔ بلاشبہ ہماری قوم قائداعظمؒ کے افکار پر عمل اور اُن کے رہنما اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ترقی و خوش حالی کی منازل تیزی سے طے کر سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button