پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر امریکی پابندیاں

بھارت نے جوہری تجربہ کرکے اپنے تئیں پاکستان کو فتح کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ لیا تھا، وہ سمجھ رہا تھا کہ پاکستان اُس کے لیے ترنوالہ ثابت ہوگا اور جلد ہی وہ اُس پر حاکم ہوگا، لیکن 28مئی 1998ء کو پاکستان نے بھارتی ایٹمی تجربے کے جواب میں چاغی کے مقام پر کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے اُس کی تمام تر خوش فہمیوں کا ناصرف خاتمہ کیا بلکہ اُسے انگشت بدنداں ہونے پر مجبور بھی کردیا۔ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لیے پاکستان پر امریکا سمیت دیگر ممالک نے بھرپور دبائو برقرار رکھا۔ پابندیاں لگانے کی باتیں کی گئیں، لیکن اُس وقت کی نواز حکومت نے کسی بھی پریشر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے تمام تر بھارتی غرور کو خاک میں ملاڈالا۔ پاکستان نے ایٹمی تجربات خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے کیا تھا۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے بالکل محفوظ ہاتھوں میں ہیں، اُن کے غلط استعمال کا چنداں بھی احتمال نہیں، کیونکہ پاکستان اس حوالے سے ازحد ذمے داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایٹمی تجربات کے بعد سے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کے مواقع کی تلاش کی جاتی ہے۔ حالانکہ پاکستان کا کردار دُنیا کے سامنے عیاں ہے۔ پاکستان کے چند ایک کو چھوڑ کر تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ وطن عزیز نے کبھی بھی کسی بھی ملک میں دراندازی نہیں کی ہے۔ کبھی بھی کسی پر حملہ آور نہیں ہوا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے ذمے داری سے اپنا کردار نبھارہا ہے۔ اس کے باوجود امریکا کی جانب سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندی عائد کرنے کا یک طرفہ اور متعصبانہ فیصلہ سامنے آیا ہے، جس سے ملک و قوم میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے اور وہ امریکا کے اس طرز عمل کو کسی طور اچھا نہیں سمجھتے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک چار اداروں پر اضافی پابندیوں کا اعلان کردیا۔ پابندیوں کا مقصد پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ترقی پر خدشات کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلائو اور ان کی ترسیل کے نظام کو روکنا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق جن چار اداروں کو پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے، ان میں پاکستان کا نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (NDC)شامل ہے جو بیلسٹک میزائل پروگرام کی نگرانی کرتا ہے، اس کے علاوہ ایفیلیٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، اور راک سائیڈ انٹر پرائز نامی ادارے شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کے لیے مبینہ طور پر میزائل اور میزائل سے متعلق آلات فراہم کیے ہیں۔ ان اداروں پر الزام ہے کہ وہ مادّی طور پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلائو میں کردار ادا کر رہے ہیں یا ادا کر سکتے ہیں۔ یہ پابندیاں ایگزیکٹو آرڈر (EO)13382کے تحت لگائی گئی ہیں، جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے نظام کو ہدف بنایا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ہتھیاروں کے پھیلائو کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ تازہ ترین پابندیاں ستمبر 2023 میں امریکا کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کے بعد ہیں، جب اس نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی متعدد کمپنیوں کو ہدف بنایا تھا۔ اکتوبر 2023ء میں چین میں قائم فرموں پر پاکستان کو میزائل کی تیاری میں استعمال ہو سکنے والی اشیاء کی فراہمی پر اضافی پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکی حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اور ترسیل میں معاونت کرنے والی سرگرمیوں کے خلاف اقدامات جاری رکھے گی۔ دوسری طرف پاکستان نے امریکا کی جانب سے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مدد دینے کے الزام میں چار اداروں پر پابندی کے اقدام کو متعصبانہ قرار دے دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک صلاحیتوں کا مقصد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے، اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا امریکی فیصلہ متعصبانہ ہے۔ امتیازی طرز عمل علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، پابندیوں کا تازہ اقدام امن اور سلامتی کے مقصد سے انحراف کرتا ہے۔ پابندیوں کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی پالیسیاں خطے اور اس سے باہر کے اسٹرٹیجک استحکام کے لیے خطرناک مضمرات رکھتی ہیں، پاکستان کا اسٹرٹیجک پروگرام ایک مقدس امانت ہے۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کا اسٹرٹیجک پروگرام 24کروڑ عوام نے اس کی قیادت کو عطا کیا، اس اعتماد کے تقدس کی سیاسی میدان میں سب سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔امریکی پابندی کے ردّعمل میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے دوٹوک اور واضح موقف اختیار کیا ہے۔ پاکستان کا کہنا بالکل بجا ہے۔ یہ پابندی انتہائی متعصبانہ اقدام کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ پاکستان امن پسند ملک ہے۔ اُس کا کردار دُنیا کے سامنے عیاں ہے۔ اس فیصلے کے خطے کے امن پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں امریکا کا ساتھ دیا ہے، اُس کی جانب سے ہمیشہ ایسا ہی طرز عمل اختیار کیا گیا ہے۔ امریکا کو اپنے اس فیصلے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔
یونان کشتی حادثہ، 40پاکستانی جاں بحق
انسانی اسمگلنگ کا عفریت ہمارے کئی نوجوانوں کی زندگیاں نگل چکا ہے۔ گزشتہ سال یونان کشتی حادثے میں 300 کے قریب پاکستانی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس سانحے پر پوری قوم اشک بار تھی۔ ملک میں انسانی اسمگلروں کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا گیا۔ بہت سے اسمگلرز پکڑے گئے۔ ان کے نیٹ ورکس کو توڑا گیا اور یہ کارروائیاں تاحال جاری ہیں۔ گو ان کی شدّت میں کمی آگئی ہے، لیکن انسانی اسمگلروں کے گرد اس سانحے کے بعد خاصا گھیرا تنگ ہوا اور ان کے اس گھنائونے دھندے کے خاتمے کے لیے راست کوششیں دیکھنی میں آئیں، لیکن اس کے باوجود اسمگلرز اپنی مذموم کارروائیوں سے باز آنے پر آمادہ نہیں اور انتہائی ڈھیٹ ثابت ہورہے ہیں۔ اب بھی یہ لوگوں کو اپنے جھانسوں میں لے کر دونوں ہاتھوں سے ناصرف دولت سمیٹ رہے بلکہ انسانی زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پھر یونان میں تین کشتیوں کو حادثہ پیش آیا، جس میں مجموعی طور پر 40پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔ یونان میں گزشتہ دنوں کشتی حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی مجموعی تعداد 40تک پہنچ گئی۔ یونان کوسٹ گارڈ نے سمندر میں ریسکیو آپریشن ختم کردیا اور قرار دیا کہ لاپتا افراد کو مُردہ تصور کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یونان میں تین مختلف کشتی حادثوں میں 35پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں اور مجموعی تعداد 40تک پہنچ گئی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ لیبیا میں ابھی بھی کم و بیش 5ہزار پاکستانی موجود ہیں اور یورپ جانے کے خواہش مند یہ افراد مختلف ایجنٹوں کے پاس ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پاکستانی قانونی طور پر پاکستان سے ویزا لے کر لیبیا پہنچے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے یونان کشتی حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کی مدعیت میں مزید دو مقدمات درج کر لیے ہیں جب کہ ایف آئی اے نے یونان کشتی حادثے کے بعد مبینہ انسانی اسمگلر محمد حسن کو گرفتار کرلیا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق انسانی اسمگلر کو یونان کشتی حادثے کے بعد کریک ڈائون میں پھالیہ سے حراست میں لیا گیا۔ ملزم نے یونان حادثے میں جاں بحق حاجی احمد سے 25لاکھ روپے وصول کیے تھے۔ یونان کشتیوں کے حادثے میں 40افراد کی اموات انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس پر پوری قوم اُداس اور اشک بار ہے۔ یہ افراد اپنا اور اہل خانہ کا مستقبل سنوارنے کی آس لیے دیارِ غیر گئے تھے، لیکن اب ان کی میتیں ان کے گھروں میں پہنچیں گی۔ تمام اُمیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ لواحقین کے لیے یہ لوگ عمر بھر کا روگ چھوڑ گئے ہیں۔ آخر کب تک انسانی اسمگلرز لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے رہیں گے۔ بہت ہوچکا، اب اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے سخت کریک ڈائون وقت کی اہم ضرورت ہے، جس میں کسی قسم کی کوتاہی اور غفلت کی چنداں گنجائش نہیں۔ اس کریک ڈائون کو آخر انسانی اسمگلر کے قلع قمع تک شدّت کے ساتھ جاری و ساری رکھا جائے۔ تمام انسانی اسمگلروں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔ لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والے کسی رو رعایت کے مستحق قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ اب ایسے اقدامات کیے جائیں کہ آئندہ کوئی نوجوان کسی انسانی اسمگلر کی بھینٹ نہ چڑھ سکے۔





