Editorial

سیاسی دانش ہی بہترین حل

وطن عزیز کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں ابتدا سے ہی سیاسی برداشت، تحمل، بردباری، دانش اور اخلاقیات کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا۔ بدترین مخالفین کے خلاف بیان میں الفاظ کا مناسب چُنائو ہوتا تھا۔ حکومتی اور اپوزیشن رہنما ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے۔ پگڑیاں اُچھالنے کا رواج نہ تھا۔ خواتین سیاست دانوں سے متعلق بدزبانی ہرگز نہیں کی جاتی تھی۔ سیاست کو خدمت سمجھ کر کیا جاتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ عظیم روایات ہم سے رُخصت ہوئیں اور بدزبانی، بداخلاقی، عدم برداشت، گالم گلوچ ایسی بُرائیاں ملکی سیاست میں در آئیں۔ سوشل میڈیا پر بھی بے پناہ خرابیوں نے جنم لیا۔ جھوٹ، پروپیگنڈے اور سچ سے پرے مواد کو رواج دیا جانے لگا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف تمام تر حدیں عبور کر ڈالی گئیں۔ دوسروں کی پگڑیاں اُچھالنے کے معاملے میں اخلاقیات کا جنازہ تک نکال کر رکھ دیا گیا۔ ایسی ایسی پوسٹیں دیکھنے میں آنے لگیں کہ الامان والحفیظ۔۔۔ خواتین سیاست دانوں تک کو نہ بخشا گیا۔ اُن کے خلاف انتہائی گھٹیا چیزیں گھڑی جانے لگیں۔ مخرب الاخلاق اوامر سرفہرست رہے۔ سیاسی عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے سیاسی حلقے کی جانب سے انتہائی غیر ذمے داری دِکھائی گئی۔ حالانکہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ناگزیر تھا۔ حکومت نے بارہا حالات کو نارمل سطح پر لانے کی کوشش کی گئی، لیکن دوسری جانب سے ضد کی انتہا کردی گئی۔اب جب کہ موجودہ حکومت کی کاوشوں سے ملکی معیشت کی بحالی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ گرانی میں کمی واقع ہورہی ہے، مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجیٹ پر آچکی ہے، پاکستانی روپیہ سُستی سے ہی سہی لیکن مستحکم ہورہا ہے، عوام کی حالت سُدھر رہی ہے، روزگار کے وسیع تر مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ کئی بین الاقوامی ادارے پاکستان میں آئندہ وقتوں میں مہنگائی میں مزید کمی اور عوامی خوش حالی کی پیش گوئیاں کررہے ہیں، پاکستانی معیشت کی صورت حال تسلی بخش ہونے کی نویدیں سنارہے ہیں۔ پاکستان میں بیرونِ ممالک سے عظیم سرمایہ کاری آرہی ہے۔ یہ صورت حال ملک کے لیے سیاسی استحکام کی متقاضی نظر آتی ہی، لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ملکی ترقی و خوش حالی کی جانب بڑھتے قدموں کی راہ میں رُکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ سیاسی دانش، تدبر، بردباری، برداشت اور اخلاقیات کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے۔ زبان درازی اور بدگوئی میں تمام تر حدیں پار کر ڈالی گئی ہیں۔ ایک سیاسی حلقے کے بڑے بڑے ذمے داران کی جانب سے ایسا رویہ اور زبان اختیار کی جارہی ہے، جسے کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا، حامیوں کو اُکساکر ملک کو تشدد کی جانب دھکیلنے کی مذموم کوششیں بارہا دیکھنے میں آرہی ہیں۔ بغاوت کے راگ الاپے جارہے ہیں۔ حالانکہ جمہوری نظام میں عوام اپنی قسمت کے فیصلوں کا اختیار سیاسی قائدین کے ہاتھوں میں دیتے ہیں، اس اعتبار کے ساتھ کہ وہ ان کے اور ریاست کے لیے بہتر فیصلے کرنے کی استعداد رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی دانش و تجربہ بروئے کار لانے کے بجائے عدم برداشت اور تشدد کی سوچ اس وقت قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بنی ہوئی ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی ضد ترک کر کے کسی اصول، قاعدے، ضابطے پر اتفاق قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ سیاست خدمت کا نام ہے، برداشت کا نام ہے، اس کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کی سوچ اپنائی جائے، اختلافات اور مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی رِیت ڈالی جائے۔ اس وقت من حیث القوم ہم فیصلہ کن موڑ پر ہیں، تصادم کا جو ماحول پچھلے چند برس کے دوران پروان چڑھتا آیا ہے، اپنے نقطۂ عروج پر ہے لیکن قومی سلامتی اور ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کا تقاضا ہے کہ اس ہیجانی صورتحال سے نکلنے کے امکانات پیدا کیے جائیں۔ افسوس اب تک کی جو صورت حال ہے اس میں تصادم اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا رجحان غالب نظر آتا ہے۔ سیاسی حلقوں کو ان حالات میں اپنی قانونی اور سیاسی ذمے داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ لوگوں کو اکسانے کے بجائے تحمل سے کام لینا سیاسی دانش کی بڑی پہچان ہے۔ جمہوری سیاسی جماعت کبھی بھی انتشار کی روادار نہیں ہوسکتی۔ جمہوری سیاسی جماعت کاکام نارمل ماحول ہی میں چل سکتا ہے، چنانچہ ملک کی بعض سیاسی جماعتیں جو اپنی جمہوری جدوجہد کا دعویٰ رکھتی ہیں، انہیں اس غیر معمولی صورت حال میں اپنا سیاسی فائدہ تلاش کرنے کے بجائے ملک و قوم کے وسیع فائدے کی جانب دیکھنا چاہیے۔ ملک مزید کسی سیاسی عدم استحکام اور بحران کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہت ہوچکا، مصائب اور مسائل کی جانب ملک کو مزید نہ دھکیلا جائے۔ مشکلات کی دلدل سے نکلنے والے ملک و قوم کے بہتری کی جانب بڑھتے قدم نہ روکے جائیں۔ سیاسی تدبر، دانش، بردباری اور اخلاقیات کا دامن تھاما جائے۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچا جائے۔ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔ گفت و شنید سے معاملات کو حل کیا جائے۔ ملک میں حالات کو نارمل سطح پر لایا جائے۔ سرمایہ کاریاں آرہی ہیں تو ان کے موافق حالات بھی پیدا کیے جائیں۔ عدم استحکام کی اس فضا سے نکلنے کا سیاسی دانش ہی بہترین حل ثابت ہوسکتی ہے۔

مریم نواز کے زیر صدارت انویسٹمنٹ کانفرنس
فروری میں عام انتخابات کے نتیجے میں جہاں مرکز میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا، وہیں ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت مسلم لیگ ن کو ملی، پہلی بار صوبائی حکومت کی سربراہی کسی خاتون کے حصّے میں آئی، پچھلے 9، 10ماہ کے دوران مریم نواز شریف نے بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب اپنا انتخاب درست ثابت کیا ہے۔ اُنہوں نے بہت کم عرصے میں عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے بڑے پیمانے پر کام کیے ہیں۔ پنجاب اور اُس کے شہریوں کی بہتری کے لیے وہ مصروفِ عمل رہتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں اسموگ ایسے سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے ان کی کاوشیں قابلِ قدر اور لائق تحسین ہیں۔ عوامی مفاد میں کیے گئے اقدامات کی بدولت مریم نواز شہریوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ وہ عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتی ہیں اور اُن کے مصائب اور مشکلات میں کمی کے لیے پیش پیش رہتی ہیں۔ پچھلے کچھ دن سے وہ دورہ چین پر تھیں، اُن کا یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ اُن کے زیر صدارت چین کے شہر گوانگ ژو میں انویسٹمنٹ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ انویسٹمنٹ کانفرنس میں چین اور ہانگ کانگ کی 60سے زائد نمایاں کمپنیوں کے حکام شریک ہوئے۔ گوانگ ژو پہنچنے پر وزیراعلیٰ مریم نواز کے اعزاز میں اسٹیٹ ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ گوانگ ژو کے وائس گورنر زینگ گوزی سے ملاقات میں مریم نواز کا کہنا تھاکہ دورۂ چین میں بہت کچھ جاننے، سمجھنیاور دیکھنیکا موقع ملا ہے۔ وائس گورنر گوانگ ژو نے کہا کہ مریم نواز کی آمد کو خوش بختی سمجھتے ہیں۔ بعدازاں وزیراعلیٰ نے انویسٹمنٹ کانفرنس کی صدارت کی جس میں صحت، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، زراعت، آئی ٹی اور دیگر شعبوں کے نمائندے شریک ہوئے اور چینی کمپنیوں نے پنجاب میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ مریم نواز نے فوکل پرسن مقرر کرنے کے علاوہ ورکنگ گروپ اور ہیلپ ڈیسک قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چینی کمپنیوں کو ون ونڈو آپریشن کے تحت سہولتیں ملیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں زیرو ویسٹ مشن شروع ہوچکا ہے، ویسٹ کو قابل تجدید انرجی میں تبدیل کرنے کے منصوبے شروع کررہے ہیں، نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی نقلاب برپا کیا جاسکتا ہے، سستی بجلی کیلئے ونڈمل، سولر انرجی اور قابل تجدید انرجی ذرائع پر توجہ دی جارہی ہے۔ ان کا کہناتھاکہ ایکو سسٹم میں بہتری کیلئے اصلاحات بھی متعارف کرائی جارہی ہیں، میگا سولرائزیشن پروجیکٹ میں چینی کمپنیوں کے اشتراک کا خیرمقدم کریں گے، ای کامرس، انکیوبیٹر سینٹر اور ای لرننگ میں بھی سرمایہ کاری کو ویلکم کریں گے، چینی کمپنیاں نوازشریف آئی ٹی سٹی میں بھی سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔ مریم نواز شریف کے زیر صدارت انویسٹمنٹ کانفرنس کا انعقاد ایک بڑی کامیابی اور اہم سنگِ میل ہے۔ صوبے میں چین اور اُس کی کمپنیوں کی جانب سے بڑی سرمایہ کاریاں آئیں گی۔ صوبے اور اُس کے عوام کو اس سے بھرپور فوائد ملیں گے۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ دوسرے صوبوں کو بھی پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے اپنے ہاں چین کی جانب سے سرمایہ کاری لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button