سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی

ایوان بالا (سینیٹ) سے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظوری کے بعد ایوان زیریں (قومی اسمبلی) نے بھی اس کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے۔
اس کے بعد ترمیم کی شق وار منظوری دی گئی، مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 4 آزاد ارکین نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا، عثمان علی، مبارک زیب خان، ظہورقریشی، اورنگزیب کھچی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری الیاس نے ترامیم کےحق میں ووٹ دیا۔
حکمران اتحاد کے 215 میں سے 213 ارکان نے ووٹ کیا، عادل بازئی کے علاوہ حکمران اتحاد کے تمام ایم این ایز نے ووٹ دیا، اجلاس کی صدارت کے باعث اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنا ووٹ نہیں دیا، جے یو آئی (ف) کے 8 ارکان نے ووٹ دیا۔
بعد ازاں اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں 225 ووٹ دیے گئے۔
ترمیم کی منظوری کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ایوان میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، شہباز شریف نے ایوان میں موجود بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر سے بھی ملاقات کی۔
کاش پی ٹی آئی بھی ترمیم کی منظوری میں شامل ہوتی، وزیر اعظم
اس موقع پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں، آج ایک تاریخی دن ہے، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج آئین میں 26 ویں ترمیم ہوئی ہے، حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا تھا، وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج آئین میں 26ویں ترمیم ہوئی، ایک پاناما تھا جو ختم ہوگیا اقامہ پر سزا دی گئی، آج میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، ماضی میں جو ہوا اب کسی وزیراعظم کو گھر نہیں بھیجا جاسکے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئینی ترمیم بل کی منظوری پر تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کاش پی ٹی آئی بھی اس میں شامل ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔
وزیراعظم کے خطاب کے بعد اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس بروز منگل شام 5 بجے تک ملتوی کردیا۔
صدر مملکت صبح 6 بجے آئینی ترمیم پر دستخط کریں گے
ترمیم کی منظوری کے بعد اس پر دستخط کے لیے ایوان صدر میں صبح ساڑھے 8 بجے شیڈول تقریب کا وقت تبدیل کردیا گیا، اب صدر مملکت صبح 6 بجے آئینی ترمیم پر دستخط کریں گے۔
حکومت کو بل کی منظوری کرانے اور اسے قانون بنانے کے لیے 224 ووٹ درکار تھے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں 111، پیپلزپارٹی کی 69 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کی 22، مسلم لیگ (ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 اراکین ہیں جب کہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن ہے۔
حکمران اتحاد کے 3 افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہے، اس طرح یہ تعداد 211 ہے اور جے یو آئی (ف) کے 8 اراکین کی حمایت کے بعد بھی یہ تعداد 219 ہوگی اور حکومت کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے مزید 5 ارکان کی ضرورت تھی۔







