ایس سی او سربراہی اجلاس کا شاندار انعقاد

پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا کامیاب انعقاد عمل میں لایا گیا۔ اس کے لیے حکومتی اقدامات ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل تھے۔ اس اہم اجلاس کی تیاریوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ برتی گئی، سب نے اس کے لیے انتہائی جانفشانی سے کام کیا۔ اس اجلاس کے لیے زبردست انتظامات دیکھنے میں آئے۔ تمام معزز مہمانان گرامی کی ہر ہر ضرورت کا خاص خیال رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے سربراہان حکومت اور نمائندوں نے ایس سی او اجلاس کے لیے پاکستانی اقدامات کی ناصرف توصیف کی بلکہ انہیں سراہا بھی۔ ایس سی او سربراہی اجلاس انتہائی کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی، وزیراعظم شہباز شریف نے مدلل اور صائب خطاب کیا۔ خطے کو درپیش مسائل اور اُن کے حل کے لیے صائب تجاویز و اقدامات سے مزّین اعلامیے کا اجرا بھی کیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کی کونسل کا 23واں اجلاس رکن ممالک کے درمیان وسیع تر اشتراک کار کے عزم کے ساتھ بدھ کو اختتام پذیر ہوگیا جب کہ سربراہی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا، جس میں کہا گیا کہ عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کے راستے کا آزادانہ اور جمہوری طور پر انتخاب کا حق حاصل ہے، ریاستوں کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا باہمی احترام پائیدار ترقی کی بنیاد ہیں، طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دینے کے اصول عالمی تعلقات کی پائیدار ترقی کے لیے بنیاد ہیں۔ اعلامیے میں ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی اتحاد برائے منصفانہ امن، ہم آہنگی اور ترقی کیلئے یو این جنرل اسمبلی سے قرارداد منظوری کی تجویز کو فروغ دیں گے۔ اعلامیے کے مطابق ایس سی او سیکریٹریٹ کی رپورٹ اور 2025ء کے بجٹ کی منظوری بھی دی گئی اور بتایا گیا کہ ایس سی او رکن ممالک کے سربراہان حکومت کا اگلا اجلاس 2025ء میں روس میں ہوگا۔ اعلامیے کے مطابق سیاست، سلامتی، تجارت، معیشت، مالیات اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دیں گے، بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹیں، سرمایہ کاری کے بہائو میں کمی بے یقینی صورت حال کا باعث بن رہی ہے، سپلائی چینز کا خلل عالمی مالیاتی منڈیوں میں بے یقینی کی صورت حال کا باعث بن رہا ہے، تحفظاتی تجارتی اقدامات کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ کوششیں جاری رکھی جائیں۔ اعلامیے میں زرعی تعاون کے فروغ کے پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے عالمی غذائی تحفظ، غذائیت میں بہتری اور تحقیقاتی تعاون کی ضرورت پر زور دیا گیا جب کہ نوجوانوں کی پالیسی میں تعاون اور سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والے پروگرامز کی ترجیح پر زور دیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق یکطرفہ پابندیوں کا نفاذ بین الاقوامی قانون کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا، یکطرفہ پابندیوں کے نفاذ کا تیسرے ممالک اور عالمی اقتصادی تعلقات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں بیلاروس، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان کا چین کے ون بیلٹ ون روڈ اقدام کی حمایت کا اعادہ کیا گیا، روس، تاجکستان اور ازبکستان نے بھی اس اقدام کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے رابطے کے فروغ اور موثر ٹرانسپورٹ کوریڈور کی ترقی، ریلوے صنعت میں جدید اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال کی حمایت کا اعادہ کیا۔ ارکان ممالک کے درمیان آٹھ دستاویزات پر دستخط کیے گئے۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) اجلاس کی صدارت میرے لیے اعزاز ہے، اجتماعی دانش سے آگے بڑھنا ہوگا، ایس سی او ممالک اپنے عوام کا مستقبل مستحکم اور محفوظ بنا سکتے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تمام معزز مہمانوں کو ایس سی او اجلاس میں خوش آمدید کہتا ہوں، ایس سی او سربراہی اجلاس میں شریک رہنمائوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او ممالک دنیا کی آبادی کا 40فیصد ہیں، آج کا اجلاس علاقائی تعاون بڑھانے کا اہم موقع فراہم کر رہا ہے، ایس سی او اجلاس میں معنی خیز مذاکرات اور نتائج کا خواہاں ہوں، ہم نے اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی اور سہولتیں فراہم کرنی ہیں، تمام ممالک ملکر خطے کی معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پائیدار ترقی کیلئے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے، یقین ہے کہ اجلاس میں سیر حاصل گفتگو کے نتائج خطے کے عوام کیلئے دوررس ہوں گے، ایس سی او اجلاس کے شریک رہنمائوں نے ایجنڈے کی منظوری دے دی۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم عالمی منظرنامے میں تبدیلی اور ارتقا کا سامنا کر رہے ہیں، موجودہ صورتحال اجتماعی اقدامات کی متقاضی ہے، پاکستان علاقائی ترقی، استحکام اور روابط کے فروغ کیلئے پرعزم ہے، ہم نے اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سیاحتی روابط، گرین ڈیولپمنٹ کے شعبوں پر توجہ کی ضرورت ہے، تجارتی روابط میں اضافے کیلئے کاوشیں ضروری ہیں، معاشی تعاون کیلئے ایس سی او ممالک کو نئی حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا، خطے کے ملکوں میں ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے بہت مواقع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان علاقائی ترقی اور استحکام کیلئے بہت اہم ملک ہے، عالمی برادری افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد پر توجہ دے، افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، افغانستان سرزمین کا دہشتگردی کیلئے استعمال روکنا ہوگا، پاکستان پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، یقینی بنانا ہوگا افغان سرزمین کسی ملک میں دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقائی ترقی کیلئے بیلٹ اینڈ روڈ انتہائی اہم منصوبہ ہے، پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، مشترکہ مستقبل کیلئے اقتصادی استحکام ہماری ضرورت ہے، خطے سے غربت کے خاتمے کیلئی اقدامات کو ترجیح دینا ہوگی۔ ایس سی او اعلامیے میں شامل ہر ایک بات سے اگر اُس پر عمل درآمد ہوجائے تو خیر برآمد ہوگی۔ ایس سی او سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد سے دُنیا بھر میں پاکستان کا انتہائی مثبت تاثر گیا ہے۔ اس میں شرکت کرنے والے سربراہان مملکت اور نمائندے اچھی یادیں لے کر اپنے ملکوں کو لوٹے ہیں۔ یقیناً اس کے ملک و قوم کو انتہائی عظیم فوائد آئندہ وقتوں میں ملیں گے۔
شذرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوراک کا عالمی دن اور اسکے تقاضے
دُنیا بھر کے بیشتر خطوں میں انسانوں کی بڑی تعداد غذائی قلت کا شکار ہے۔ بھوک کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں زندگی کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے۔ غذائی قلت کے حوالے سے اعداد و شمار انتہائی حد تک ہولناک ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی امداد فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) نے کہا ہے کہ زندگی بچانے کے علاج میں استعمال ہونے والی خوراک ( آر یو ٹی ایف) کی خریداری کے لیے فنڈز کی قلت کے باعث دُنیا بھر میں شدید غذائی قلت کا شکار 20لاکھ بچوں کو موت کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ غذائی قلت سے شدید متاثرہ 12ممالک میں پاکستان سمیت مالی، نائیجیریا، چاڈ، نائجر، کیمرون، سوڈان، مڈغاسکر، کینیا، جنوبی سوڈان، کانگو اور یوگنڈا شامل ہیں۔ رواں سال پاکستان میں شدید غذائی قلت کا شکار صرف 2لاکھ 62ہزار بچوں ( متاثرہ بچوں کی ایک تہائی تعداد) کو زندگی بچانے والی خوراک (آر یو ٹی ایف) مہیا کی جا سکی ہے۔ پاکستان میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی زندگی بچانے والی خوراک کی موجودہ سپلائی مارچ 2025ء میں ختم ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس کے علاج کی جاری کوششوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ایک بیان کے مطابق کئی ممالک میں تنازعات، اقتصادی جھٹکوں اور موسمیاتی بحرانوں کے باعث 5 سال سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ یہ حقائق دل دہلادینے کے لیے کافی ہیں۔گزشتہ روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراک کا عالمی دن منایا گیا، تاکہ خوراک، لوگوں اور کرہ ارض کے مستقبل کے لیے بھوک سے آگاہی اور عمل کو فروغ دیا جائے۔ اس سال خوراک کے عالمی دن کا تھیم ’’ بہتر زندگی اور بہتر مستقبل کے لیے خوراک کا حق’’ تھا۔ خوراک کا عالمی دن ہر سال 16اکتوبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، یہ دن 1945 ء میں اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم کے قیام کی تاریخ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن بھوک اور غذائی تحفظ سے متعلق بہت سی دوسری تنظیموں بشمول ورلڈ فوڈ پروگرام، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈیولپمنٹ کی طرف سے بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ ایک طرف لاتعداد انسان غذائی قلت سے دوچار ہیں تو دوسری طرف ماہرین سالانہ بنیادوں پر دُنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی حصّہ ضائع ہونے سے متعلق لب کشائی کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ غذا کا ضیاع کسی بھی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر یہ خوراک ضائع نہ ہو اور غذائی قلت کے شکار لوگوں تک بہم پہنچا دی جائے تو اس سے خلق خدا کی بڑی تعداد خوراک کی پیداوار میں کافی وقت اور محنت صَرف ہوتی ہے۔ اس طرح اس کا یوں بے دردی سی ضیاع کر دیا جانا افسوس ناک ہے۔ دُنیا کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ خوراک کے ایک ایک ذرّے کی قدر کرے اور اسے ہرگز ضائع نہ ہونے دے۔ غذائی قلت کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے دُنیا کے تمام ممالک اور عالمی اداروں کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔







