پاکستانی سیاست میکائولی نظریات کے زیر اثر

تجمل حسین ہاشمی
میکائولی کا نام میں نے پہلی دفعہ سینئر صحافی و منصف رئوف کلاسرا کی کتاب میں پڑھا۔ زیادہ توجہ نہیں دی لیکن چند دن پہلے میکائولی کے نظریات کو پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ اگست 2008کی بات ہے، 2008کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک معاہدے میں طے پایا تھا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت تمام برطرف کئے گئے ججوں کو پارلیمان کی ایک قرارداد کے ذریعے بحال کر دیا جائیگا۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد آصف زرداری اب ایسا کرنے پر آمادہ نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ اسی دوران آصف علی زرداری نے ایک تاریخی جملہ کہا جو پاکستان کی سیاست میں شاید ہمیشہ یاد رکھا جائیگا، ’’مسلم لیگ نون کے ساتھ ہونیوالے معاہدے کوئی قرآن یا حدیث نہیں ہیں کہ ان میں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ تبدیلی نہ کی جا سکے۔‘‘ 16ویں صدی کے سیاسی مفکر نیکولو میکائولی کے بارے میں آصف زرداری کو معلوم ہوگا، یہ تو معلوم نہیں لیکن کتاب ’’دی پرنس‘‘ میں میکائولی لکھتے ہیں، ’’ایک کامیاب حکمران کو اپنے الفاظ اور وعدے کو نبھانے سے اگر کسی طرح کا سیاسی نقصان ہورہا ہو تو اسے ہرگز اپنے الفاظ کی پاسداری نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ نیکولو میکائولی وہ پہلے سیاسی مفکر ہیں جس نے سیاست اور اخلاقیات کو علیحدہ کرکے پیش کیا۔ اس کے نظریات میں غلط اور صحیح کے بجائے فوکس درپیش حقائق کیا ہیں اور کیا حاصل کرنا ضروری ہے تھے، وہ عملی اور حقیقت پسندانہ حکمت عملی پر زور دیتے تھے۔ فلسفیانہ خیالات سے دور رہتے تھے۔
اس نے کامیاب حکمران کو یہ مشورہ دیا، ’’آپ کو اپنے لئے بچھائے گئے جال کو پہچاننے کیلئے لومڑی کی طرح چالاک ہونا چاہئے اور بھیڑیوں کو ڈرا کر بھگانے کیلئے شیر کی طرح ہونا چاہئے۔ جو لوگ صرف شیر کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ سیاست میں بیوقوف ہوتے ہیں۔‘‘ میرے خیال میں صدر پاکستان آصف علی زرداری سیاسی میدان میں کامیاب ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی ماضی کی چپقلش میں ان کے خود کا اور ملکی جمہوری نظام کو بہت نقصان پہنچا ہے، خاص کر پیپلز پارٹی کے دو بانی اس نظام کی بحالی کیلئے جان کی بازی دے گئے۔ لیکن آج دونوں بڑی جماعتیں آپس میں اتحادی ہیں اور اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مفادات کیلئے سر جوڑ چکے ہیں۔ 2013کے دھرنے کے بعد ایک دوسرے کے ہم دم ہوئے، اس وقت تحریک انصاف زیر عتاب ہے، یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں تحریک انصاف کے ووٹر موجود ہیں اور 2024کے انتخابات کو لیکر ان کو غصہ ہے۔ ان کا گلہ ہے کہ پاکستان میں آج تک حق رائے دہی کا احترام نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے
انتخابات پر ڈھیروں اعتراضات ہیں لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 2018میں بھی تحریک انصاف کو آر ٹی ایس سسٹم کے ذریعے جتوایا گیا۔ تحریک انصاف کے بانی کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ سیاست میں سخت موقف دیرپا نہیں رہ سکتا۔ تیسری دنیا کے ممالک کیلئے جن میں ہم بھی شامل ہیں، انٹر نیشنل طاقتوں کی پالیسی ہے کہ ان ممالک کے عسکری اداروں کو کمزور کرنا ہے، ان کو سول معاملات میں الجھا کر رکھنا ہے، ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کو اپنے معاملات کو اسمبلیوں میں حل کرنے چاہئیں۔ میرے خیال سے پاکستانی سیاست دانوں کو آصف علی زرداری سے سیاسی سبق سیکھنا چاہئے، ایک عرصہ جیل میں گزار کر بچوں سے دور رہنے کے بعد بھی زخم دینے والوں کو معاف کیا اور جمہوری نظام کی فلاح کیلئے کئی معاملات پر کمپرومائز کیا، کئی سیاسی رہنما سختیوں کے بعد بھی کمپرومائز کرکے اس نظام کا حصہ رہے لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عوامی سہولتوں کیلئے کوئی پلاننگ نظر نہیں آئی بلکہ منتخب نمائندوں نے بھی حق گوئی نہیں کی، اپنے حلقوں کے فنڈز دامادوں کی جھولی میں ڈالے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں رہا، قائداعظم محمد علی جناح نے عوام کے حقوق اور ان کی حق رائے دہی کو مقدم رکھا لیکن ماضی کے تمام انتخابات میں حق رائے دہی کو پامال کیا گیا۔ جس کی وجہ سے 25کروڑ عوام ناراض ہیں۔