ColumnQadir Khan

گریٹر اسرائیل کا خواب

قادرخان یوسف زئی
مشرقِ وسطیٰ اس وقت اسرائیلی جارحیت کی لپیٹ میں ہے۔ خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، اور بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کے توسیع پسندانہ عزائم نے پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکومت کے ایک وزیر نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا ایک نقشہ پیش کیا، جو اسرائیل کی خواہشات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے علاقوں کو بھی اپنے تسلط میں لانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل کے اس توسیع پسندانہ نقشے کے پیچھے صرف خطے کے ممالک کی جغرافیائی تبدیلی کا خواب نہیں چھپا ہوا، بلکہ اس کے پیچھے لاکھوں معصوم لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرنے کا خطرہ بھی شامل ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا سب سے بڑا نشانہ وہ بے گناہ شہری ہیں، جن کے پاس نہ تو کوئی سیاسی طاقت ہے اور نہ ہی کوئی عسکری وسائل دستیاب ہیں۔
فلسطین کے بے یار و مددگار لوگ، جو عرصہ دراز سے اسرائیلی قبضے اور جارحیت کا شکار ہیں، آج بھی اسی بے بسی کا سامنا کر رہے ہیں۔ بچوں کے اسکول تباہ ہو رہے ہیں، معصوم شہریوں کے گھر ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں، سڑکیں اب موت کا پیغام دینے والے میزائلوں اور بموں سے بھر چکی ہیں۔ یہ وہ مناظر ہیں جو فلسطین، لبنان، اور دیگر ہمسایہ ممالک میں روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت نے سب سے زیادہ نقصان ان معصوم بچوں اور خاندانوں کو پہنچایا ہے، جو اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ ماں کی گود میں بچے کی لاش، باپ کا اپنے بیٹے کی قبر کے پاس ماتم، اور وہ بچے جن کے چہروں پر اب معصومیت کی جگہ خوف نے لے لی ہے۔ یہ وہ دلخراش مناظر ہیں جو اسرائیلی بمباری اور حملوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنی زمین اور گھروں سے محروم ہو چکی ہیں، بلکہ ان کے دلوں سے امید کا چراغ بھی بجھ چکا ہے۔
ہر روز کی جارحیت نے ان معصوم لوگوں کو ایک ایسے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے جہاں زندگی صرف موت کے انتظار کا نام بن چکی ہے۔ بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں غائب ہو چکی ہیں، اور ان کی آنکھوں میں خوف کی جھلکیاں ابھرتی ہیں۔ مائوں کا دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے کہ کہیں کوئی میزائل ان کے بچے کی زندگی کو نہ چھین لے۔ یہ بے بسی، یہ دکھ، اور یہ غم وہ حقیقتیں ہیں جن کا سامنا فلسطینی عوام ہر روز کرتے ہیں، اور اسرائیل کی جارحیت نے ان کی زندگی کو مسلسل ایک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کے منصوبے نے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پورے خطے کے مستقبل کو دا پر لگا دیا ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیل کی خطے میں طاقت اور زمین پر قبضے کی خواہش کا مظہر ہے، جو خطے کے دیگر ممالک، جیسے کہ لبنان، شام، اردن، اور ایران کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ یہ عزائم نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک کی خودمختاری کو پامال کرنے یا ان کی زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت کی جانب سے گریٹر اسرائیل کا تصور ان قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یہ منصوبہ عالمی برادری کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خطے میں اسرائیلی تسلط کو بڑھانے کی کوشش ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے باوجود عالمی برادری اور خصوصاً امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ 2024ء کے صدارتی انتخابات کی تیاریوں کی وجہ سے امریکی حکومت کی توجہ و پالیسی داخلی مسائل پر مرکوز ہے، جس کا فائدہ اسرائیلی حکومت بھرپور طریقے سے اٹھا رہی ہے۔ امریکی انتخابات اسرائیل کے لئے اپنے مذموم عزائم پورے کرنے لئے سنہری موقع کے طور پر سامنے آیا اور اسرائیلی حکومت اپنے گریٹر اسرائیل کے عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے، دوسری طرف لاکھوں معصوم انسان اپنی زندگیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بچوں کے خواب، مائوں کی دعائیں، اور بزرگوں کی پرانی یادیں، سب کچھ اس جنگ میں بکھر چکا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف اپنی سرزمین، بلکہ اپنی شناخت اور مستقبل کی امید سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ فلسطینی عوام، جو نسل در نسل ظلم اور استبداد کا شکار ہیں، آج بھی اپنے گھروں اور خاندانوں کو بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ لیکن ان کے پاس وسائل نہیں، ان کے پاس کوئی فوج نہیں، اور ان کے پاس عالمی برادری کی حمایت بھی نہیں۔ ان کی بے بسی اور خاموش چیخیں دنیا بھر کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی عوام کی بدترین انسانی صورت حال پر عالمی برادری کی خاموشی اور بے عملی نے بے شمار سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان سوالات میں سب سے نمایاں سوال یہ ہے کہ کیا یورپی ممالک واقعی غزہ میں جنگ بندی کروانے کی اہلیت نہیں رکھتے، یا یہ محض ایک عذر ہے جو ان کی سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے تراشا گیا ہے؟۔ یورپی ممالک کا یہ کہنا کہ ان کے پاس غزہ میں جنگ بندی کروانے کے اختیارات نہیں ہیں، ایک ایسی دلیل ہے جو بظاہر حقیقت کے منافی لگتی ہے۔ یورپ، جو دنیا کے طاقتور ترین سیاسی اور اقتصادی اتحادوں میں سے ایک ہے، نے دنیا کے کئی دیگر بحرانوں میں موثر کردار ادا کیا ہے، تو پھر فلسطین کے معاملے میں ان کی بے بسی کیوں؟۔
یورپی یونین عالمی سیاست اور اقتصادیات میں ایک طاقتور حیثیت رکھتی ہے۔ یورپی ممالک نے ماضی میں یوگوسلاویہ، لیبیا اور شام جیسے بحرانوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی سیاسی اور سفارتی طاقت انہیں دنیا کے دیگر تنازعات میں موثر مداخلت کی اجازت دیتی ہے۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں یہ طاقتور ممالک کیوں ناکام ہیں؟ کیا یہ واقعی اختیارات کی کمی کا مسئلہ ہے، یا یورپی قیادت نے اس تنازع میں اپنے مفادات کو انسانی حقوق اور انصاف پر ترجیح دی ہے؟۔ یورپی ممالک کا غزہ میں جنگ بندی کے لیے اختیارات کا نہ ہونے کا دعویٰ ایک غیر منطقی اور غیر معقول عذر ہے۔ یورپ کی تاریخ اور اس کی عالمی طاقت کے پیش نظر یہ دعویٰ بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ یورپی ممالک کی سیاسی مصلحتیں، اقتصادی مفادات، اور اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، جنہوں نے انہیں فلسطینی عوام کی مدد کرنے سے روک رکھا ہے۔ یورپی ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ورنہ تاریخ انہیں ایک ایسے کردار کے طور پر یاد رکھے گی جنہوں نے اپنے مفادات کے لیے معصوم فلسطینیوں کی بربادی کا تماشا دیکھا اور کچھ نہ کیا۔

جواب دیں

Back to top button