’’ شنگھائی تعاون تنظیم وسیلہ ظفر ‘‘

مسعود ماجد سید
پاکستان کیلئے یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ اسے رواں ماہ اکتوبر میں جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)کے سربراہان مملکت کے اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہو رہاہے۔ اگر اس تنظیم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے شنگھائی تعاون تنظیم جسے انگریزی میں Shanghai Cooperation Organisation (SCO)) کہا جاتا ہے یہ ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تنظیم ہے ۔ جس کو شنگھائی میں2001ء میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنمائوں نے قائم کیا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ (Shanghai Five)کے اراکین تھے سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001ء میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ پاکستان 2005ء سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور 2010ء میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ء میں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ذمہ داریوں کی یادداشت پر دستخط بھی کر دئیے ، جس کے بعد پاکستان تنظیم کا مستقل رکن بن گیا۔ 9جون 2017ء کو پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی مکمل رکنیت مل گئی۔ ایران نے 2023ء اور بیلاروس نے 2024ء میں تنظیم کے مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور اس طرح ایس سی او کے مستقل ارکان کی تعداد 10ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ 3ممالک مبصر اور 14ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز کی حیثیت سے تنظیم سے منسلک ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے ایس سی او دنیا کے تقریباً 80فیصد رقبے پر محیط ہے۔ 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق ایس سی او دنیا کی 40فیصد آبادی اور جی ڈی پی کا تقریباً 32فیصد حصہ رکھتی ہے۔ تنظیم کے چار اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے ۔شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس 15اور 16اکتوبر کو اسلام آباد میں ہوگا جس میں کئی ممالک کے سربراہان اور نمائندے شریک ہوں گے۔ اس سے قبل 10اور 11ستمبر کو پاکستان نے اسلام آباد میں ایس سی او کی تجارت اور اقتصادی امور کے وزراء کے اجلاس کی میزبانی کی جس میں پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کی۔ جام کمال نے خطے میں امن اور خوشحالی کیلئے تنظیم کے اغراض و مقاصد کیلئے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔ ایس سی او سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو دعوت نامہ بھیجا گیا تھا لیکن اُن کی جگہ بھارتی وزیر خارجہ کانفرنس میں شریک ہونگے۔ گزشتہ سال 4 جولائی 2023ء کو بھارت میں ہونیوالے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تجارت اور اقتصادی امور کے وزراء کے اجلاس کے ساتھ 12اور 13ستمبر کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI)نے اسلام آباد میں ایس سی او بزنس اور انویسٹمنٹ کانفرنس منعقد کی جس میں ایس سی او ممبر ممالک کے چیمبرز، فیڈریشن، بزنس مین اور پاکستان میں تعینات ایس سی او ممالک کے تمام سفیروں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں ایس سی او ممالک میں تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے مواقع پر تقاریر اور پینل ڈسکشن کی گئی۔ افتتاحی اجلاس میں سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی، وزیر تجارت جام کمال، وزیر پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک، گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام نے شرکت کی۔ایس سی او اور سارک بلاک جن کے ممبرز میں پاکستان اور بھارت بھی ہیں لیکن ان کے سیاسی اختلافات کی وجہ سے خطے کی تجارت فروغ نہیں پاسکی۔ پاکستان کی ایس سی او ممالک سے ٹریڈ 24.6ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان سے ایکسپورٹ 4.6ارب ڈالر اور امپورٹ 20ارب ڈالر ہے۔ اس ٹریڈ میں پاکستان اور چین کی تجارت 22ارب ڈالر ہے یعنی دیگر ممالک سے پاکستان کی تجارت صرف ایک فیصد یعنی 2.6ارب ڈالر ہے جو دنیا کے سب سے بڑے علاقائی تجارتی بلاک میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا سیاست، ڈپلومیسی اور تجارت کو علیحدہ رکھا جائے۔ ہمیں بھارت سے تجارت پر پابندی ختم کرنی چاہئے اور بھارت کو بھی ایس سی او اور سارک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ہم علاقائی بلاکس کے مقاصد حاصل کر سکیں۔ ایس سی او اور سارک ممالک سے تجارت کے فروغ کیلئے ہمیں ممبر ممالک میں بینکنگ چینل کھولنے ہوں گے جبکہ وسط ایشیائی ممالک جن کی اپنی بندرگاہیں نہیں ہیں اور وہ پاکستان کے زمینی راستے تجارت کر رہے ہیں ، کے فروغ کیلئے ہمیں ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا ۔ خوشی کی بات ہے کہ این ایل سی نے حال ہی میں وسط ایشیائی ممالک میں کنٹینرز کے ذریعے تجارت بڑھائی ہے۔ ایس سی او کے دو اہم ممالک روس اور ایران سے پاکستان کی تجارت نہایت کم ہے۔ روس کی فی کس آمدنی 13647ڈالر اور ہماری تجارت بمشکل ایک ارب ڈالر ہے جبکہ ایران کی فی کس آمدنی 4662ڈالر اور ہماری تجارت 1.8ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح بھارت سے ہماری تجارت بمشکل 531ملین ڈالر ہے جسے بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ایس سی او تنظیم کا مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریئے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ خطے میں دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے چینی وزیر خارجہ نے ایس سی او کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں تجویز پیش کی کہ ایس سی او ممالک کو افغانستان سے گریٹر ڈائیلاگ کرنا چاہئیں۔ پاکستان کیلئے یہ بہت اہم موقع ہوگا کہ وہ اس سوچ کو اس پلیٹ فارم سے عملی جامہ پہنائے اور افغانستان سے دہشت گردی کے معاملے پر ڈائیلاگ کرے اور دوطرفہ تجارت کو فروغ دے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو دوسرے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک سے بھی تجارتی معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان ایس سی او کو متحرک تنظیم بنانے اور اہداف کے حصول میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ ہمارے چیلنجز مشترکہ ہیں، ہمیں مل کر ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ خطے کے روشن مستقبل کے لیے ہمیں جغرافیائی سیاسی محاذ آرائی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے تجارت کی اہم گزرگاہ ہے، سی پیک کے ذریعے ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کی جانب گامزن ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایس ای او کا اقدام لائق تحسین ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایس ای او خطے کے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے ایس سی او کی چیئر کی حیثیت سے قازقستان نے بہترین کردار ادا کیا۔ آئندہ سال کے لیے صدر شی جن پھنگ کو ایس سی او کی چیئرمین شپ ملنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہم سب پاکستانیوں کی دل سے یہ دعا کہ یہ اجلاس خیریت سے ہو اور پاکستان کا خطے میں اقبال بلند ہو۔