CM RizwanColumn

بیچارے کان کن

سی ایم رضوان
ایک انسانی جان کی ناانصافی اور ظلم سے ہلاکت گویا پوری انسانیت کی ہلاکت ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی ملک یا معاشرے میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پورے سسٹم کے لئے باعث ندامت اور قابل مواخذہ ہوتا ہے مگر الا ماشاء اللہ ہمارے ملک کی ہر حکومت کو گویا دہشت گردی کے تمام واقعات پر استثنیٰ حاصل ہے۔ کسی بھی بڑے سے بڑے واقعے پر یوں خاموشی اور لاپرواہی کی جاتی ہے کہ جیسے یہ معمول کی کارروائی ہو۔ خاص طور پر بلوچستان میں تو یہ اندھیر لازم ہی سمجھ لیا گیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی اور ہلاکتوں کو یہاں کے عوام کا مقدر ٹھہرا دیا گیا ہے۔ یہاں کے عوام بھی اب خونریزی کے عادی ہو چکے ہیں اور مختلف درپردہ طاقتوں کے الہ کار بن کر یا تو مار رہے ہیں یا نر رہے ہیں۔ تبھی تو ایسے واقعات پر وزیر داخلہ کی طرف سے بھی سر پر معمولی سی کھجلی کر کے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ایسے واقعات پر کسی بڑے آپریشن یا کلین اپ کارروائی کی ضرورت نہیں ان کے تدارک کے لئے ایک ایس ایچ او ہی کافی ہے۔ یہ بات بھی اس صورت میں ٹھیک سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر متعلقہ ایس ایچ او کو امن و امان قائم نہ رکھ پانے کی صورت میں پیٹی اتر جانے کا خطرہ ہو تو۔ ورنہ ایس ایچ او بھی ہمارے وزیروں کی طرح یہ کہہ کر جان چھڑا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کو تو میرا ایک سپاہی بھی نتھ ڈال سکتا ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں دہشت گردوں کے پورے پورے نیٹ ورک اور گینگ کام کر رہے ہیں اور ان کو بڑی بڑی عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
ایک خبر ہے کہ ایس سی او کانفرنس کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کے طور پر پنجاب حکومت نے بھی امن وامان کے لئے آئین کے آرٹیکل 245کے تحت پاک فوج کو طلب کر لیا ہے۔ وزارت داخلہ پنجاب کی جانب سے فوج کی خدمات سے متعلق قواعد کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فوج، سول آرمڈ فورسز اور پولیس سے مل کر ایس سی او کانفرنس میں امن و امان برقرار رکھے گی، ایئر پورٹس، راستوں، مقامات اور ارد گرد علاقوں میں امن و امان برقرار رکھا جائے گا۔ پنجاب حکومت کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فوج کو واضح اور غیر مبہم رولز آف انگیجمنٹ دیئے گئے ہیں اور مسلح افواج، سول آرمڈ فورسز، قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی خطرے کی اطلاع حاصل کر سکیں گے، دشمن عناصر، ہجوم یا فسادیوں کی طرف سے حملہ یا دھمکی کے موقع پر اقدامات کر سکیں گی۔
بہرحال وزیراعظم نے دکی میں دہشت گرد حملے کی مذمت۔ کرتے ہوئے مجرموں کو نیست و نابود کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو کہ ہر پاکستانی حکمران زبانی دعوے کرتا ہے۔ پنجاب حکومت کا یہ اقدام دراصل بلوچستان حکومت کے لئے ایک مثال ہے کہ اس صوبہ میں جہاں دہشت گرد اور دہشت گردی روز افزوں ہے وہاں پر آرمڈ فوج کیوں تعینات نہیں کی جاتی۔
تاہم دکی سٹی پولیس کے ایس ایچ او ہمایوں خان نے صحافیوں کو بتایا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب دکی شہر سے کچھ فاصلے پر کوئلے کی کانوں میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مسلح افراد نے پہلے کوئلے کی کان پر راکٹوں اور دستی بموں سے حملہ کیا اور بعد ازاں شدید فائرنگ کی جس سے کئی مزدور تو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ رات گئے مسلح افراد اور فورسز میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے حملہ آوروں کو پہنچنے والے کسی قسم کے نقصان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ تاحال حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم یا گروہ نے قبول نہیں کی۔ یاد رہے کہ دکی بلوچستان کا ایک چھوٹا ضلع ہے۔ یہ علاقہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر سے لگ بھگ 225کلومیٹر دور ہے جہاں کوئلے کی کانیں ہیں۔ ان کانوں سے کوئلہ نکالنا مقامی آبادی کے معاش کا بڑا ذریعہ ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد ملزمان کی تلاش کے لئے سرچ آپریشن کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سرکاری طور پر نہیں بتایا کہ کتنے حملہ آور تھے اور کارروائی کے بعد وہ کہاں فرار ہوئے۔ تاہم ہلاک ہونے والے کان کنوں کی لاشوں اور زخمی مزدوروں کو مقامی سرکاری اسپتال منتقل کیا گیا۔ ہسپتال میں ایک کان کن عبد الباری نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ جمعرات کو کوئلے کی کانوں میں ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہی اس لئے کان کن رات دیر تک جاگتے ہیں۔ ان کے بقول گزشتہ شب بھی ہم دیر تک جاگ رہے کہ ساڑھے بارہ بجے اچانک فائرنگ شروع ہو گئی جس کے سبب بھگدڑ مچ گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فائرنگ کی آواز کے ساتھ ہی مزدور یہاں وہاں بھاگنے لگے۔ مزدوروں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ عبدالباری کا کہنا تھا کہ کئی کان کن کمروں کی چھتوں پر سو رہے تھے۔ ان پر دستی بم پھینکے گئے۔ بموں کے حملے کی وجہ سے ان کی موت موقع پر ہی ہو گئی تھی۔ بعض عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی افراد راکٹوں کے حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ کان کن عبدالباری نے کہا کہ یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ کچھ دیر پہلے جن ساتھیوں سے ہم باتیں کر رہے تھے اور کھیل رہے تھے وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ دکی ہسپتال میں موجود ایک اور عینی شاہد حفیظ اللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ حملہ آوروں نے ان کے کمرے کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن انہوں نے دروازہ نہیں کھولا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور پشتو زبان بول رہے تھے۔ ان کے بقول حملہ آور مزدوروں سے کہہ رہے تھے کہ آج کے بعد ان کوئلے کی کانوں میں کام بند ہونا چاہیے۔ تاہم رات گئے دکی میں شدید فائرنگ اور بم دھماکوں کی آوازیں آئیں اور یہ سلسلہ مسلسل دو گھنٹوں تک جاری رہا جس سے مقامی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ نامعلوم مسلح افراد نے جیند کول مائنز پر حملہ کیا ہے۔ ہسپتال کے مناظر میں ہر طرف خون سے لت پت لاشیں نظر آ رہی تھیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں دکی کوئلہ کانوں میں حادثات کے باعث کئی کان کن ہلاک ہوئے ہیں جب کہ یہاں سے کوئلہ سپلائی کرنے والی مال گاڑیوں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔ یوں بے چارے کان کنوں کو غربت کے ساتھ ساتھ ملکی حالات بھی ہر وقت اور ہر طرح سے مارتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہرنائی اور کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں بھی کان کنوں کے اغوا کے بعض واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ جبکہ دکی میں کوئلے کی کانوں پر منظم انداز سے ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ ہے۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ 2021ء میں بلوچستان کے علاقے مچھ بولان میں پیش آیا تھا جس میں مسلح افراد نے تیز دھار آلے سے 11مزدوروں کے سر قلم کیے تھے۔ ان مزدوروں کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا۔ ہسپتال ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ہلاک ہونے والے کان کنوں میں سے تین کا تعلق افغانستان سے ہے جبکہ چھ کا ضلع عوب، چار کا ضلع قلعہ سیف اللہ، تین کا ضلع پشین اور دیگر کا تعلق۔ لورالائی، ہرنائی اور کچلاک کے مختلف علاقوں سے ہے۔ اس واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو مزید طبی امداد فراہم کرنے کے لئے لورالائی کے سرکاری ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ واقعے کے خلاف بلوچستان میں مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے سخت موقف سامنے آیا ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن، ورکر فیڈریشن اور انجمن تاجران نے واقعے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ جمعرات کو دکی لیبر فیڈریشن نے ہلاک مزدوروں کی لاشوں کے ہمراہ دکی کے باچا خان چوک پر احتجاجی دھرنا دیا۔ واضح رہے ان کانوں سے کوئلہ نکالنے کا کام جیند کول مائنز کمپنی کرتی ہے جس کے مالک ڈسٹرکٹ چیئرمین حاجی خیر اللہ ناصر ہیں۔ حاجی خیر اللہ ناصر کا کہنا تھا کہ مسلح افراد کی فائرنگ سے ان کی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ ان کے مطابق حملہ آوروں نے کوئلہ کی 10کانوں میں نصب انجن بھی نذرِ آتش کر دیئے ہیں۔
بہرحال وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کان کنوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ملوث شرپسند عناصر قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ ساتھ ہی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی کان کنوں کے قتل پر مذمتی بیان جاری کیے ہیں لیکن ان بیانات سے آگے کیا ہو گا کچھ کہا نہیں جا سکتا ماضی میں تو ایسے بیانات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا شاہد اب ان بیچارے کان کنوں کا خون ہی رنگ لے آئے۔

جواب دیں

Back to top button