Column

جنوں خیز شاعری اور تعلیم

ندیم اختر ندیم

تعلیم ایسا موضوع ہے کہ اسے جس کے ساتھ بھی چھیڑا جائے تو سامنے والے کی ذہنی سطح اور عمر کا خیال رکھا جانا لازم ہے تو ہی ہمیں دوسرے کے ساتھ اس موضوع کو زیر بحث لانے کا کچھ فائدہ ہوگا بصورت دیگر فائدہ تو رہا ایک طرف الٹا نقصان کا اندیشہ دوچند ہے۔ ایسے ہی ہمارے تعلیمی نصاب کا معاملہ بھی ہے کہ تعلیمی نصاب کو مرتب کرتے ہوئے اس بات کو پیش نظر رکھنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ایک طالب علم کی کلاس کیا ہے اور اس کلاس میں کس قدر تعلیم کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کچی عمر کے طالب علموں سے پکی عمر کی باتیں کر دیں گے تو بھی یہ تعلیم فائدے سے زیادہ مضر ثابت ہوگی۔ ایک طرف تغیرات زمانہ نے حالات کو ہیجان انگیزیوں سے دوچار کر دیا ہے انٹرنیٹ کی ہلاکت انگیزیوں کا کسے علم نہیں کہ آج کے بچے وہ کام بھی کر گزرتے ہیں جو انہیں کبھی یا کم از کم ابھی نہیں کرنے چاہئے انٹرنیٹ نے جہاں فائدوں کے جہان آباد کر رکھے ہیں وہاں اسکے خرابے بھی کچھ کم نہیں ہیں جس طرح ایک بچہ جب موبائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرے گا تو اسے نہ صرف بینائی کی خرابی سے دوچار ہونا پڑے گا اعصاب مضمحل ہونگے بلکہ وہ موبائل سے منفی تربیت پا کر اپنی سوچ کو بھی اس میں ڈھال کر رکھ دے گا جو وہ دیکھے گا ایسے ہی ہماری تعلیمی کتب بھی ہیں کہ جس میں وہ ہی پڑھایا جانا چاہئے جس کی ضرورت ہے یا جسے اس عمر میں پڑھانا ناگزیر ہو۔ ایسا سلییبس جسے وقت سے پہلے پڑھا دیا جائے تو وہ بھی ہمارے بچوں کی ذہنی حالت کو بدل دیتا ہے۔ ہم اردو ادب کی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اردو ادب کلاس نہم کا سلیبس پڑھئیے تو اس میں کچھ ایسا ادب متعارف کروادیا گیا ہے جس کی نہم کلاس میں چنداں ضرورت نہیں تھی اور یہ سلیبس پچھلے کئی سالوں سے مسلسل پڑھایا جارہا ہے اور صد حیف کہ ہمارے تعلیمی رہنمائوں کا دھیان بھی اس طرف نہیں گیا کہ یہ کیا ہوگیا ہے یا کیا ہورہا ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش ہماری ادبی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے اگر ہم میر و غالب کے بعد چند ایک شعراء کرام کے ادبی محاسن کا جائزہ لیں تو اس میں حیدر علی آتش کا نام۔ نمایاں دکھائی دی گا کہ حیدر علی آتش ادب کے میدان میں پورے قد سے کھڑے نظر آتے ہیں جن کی شاعری کو دبستان لکھنو کی شاندار شاعری سے تعبیر کیا گیا ہے تاہم ان کی شاعری میں لکھنوی لہجہ بھی پایا جاتا ہے بلکہ یوں کہئے خواجہ صاحب لکھنو کی خارجی اور دہلی کے داخلی تخیلاتی دنیائوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ رام بابو سکسینہ نے حیدر علی آتش کو غزل میں میر و غالب کے بعد تیسرا بڑا شاعر قرار دیا ہے خواجہ حیدر علی آتش کے مزاج میں بانکپن بدرجہ اتم تھا خواجہ صاحب طبیعت کے بہادر تھے اب ایک بہادر اور بانکے شاعر کی شاعری کو نہم کلاس میں شامل کر لینا کچھ مناسب نہیں اگرچہ انکی شاعری میں مضمون آفرینی حد درجہ ہے۔ لیکن ایسی شاعری جو مضمون آفرینی کے ساتھ جنوں خیز بھی ہو اس سے نہم جماعت میں گریز لازم ہے۔
ہمارے تعلیمی نصاب میں نہم سے لے کر ایم اے اردو تک خواجہ حیدر علی آتش کو شامل کیا گیا ہے اور خواجہ صاحب کی شاعری نصابی معیار پر ہر طرح سے پورا اترتی ہے لیکن نہم کلاس میں حیدر علی آتش کے کلام کا انتخاب کرتے وقت تعلیمی رہنمائوں نے یہ نہیں سوچا یا دیکھا کہ کلام کی مسند کیا ہے اور شامل کس کلاس میں کیا جارہا ہے،
خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل :
رخ و زلفِ پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا
ایک تو اردو کا یہ اسلوب اس وقت کی اردو کا اسلوب ہے جب اردو اپنی ترقی کا سفر طے کر رہی تھی یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں اردو کے خلاف کس قدر محاذ کھولے گئے اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا گیا جس سبب اردو کے ساتھ کچھ بہتر سلوک نہیں ہوا اس زبان اور اس کو بولنے والوں کے خلاف جو جو کچھ کیا گیا وہ بھی تاریخ میں اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس وقت اس زبان کے ساتھ جو ہم کر رہے ہیں وہ بھی کچھ مناسب نہیں حیدر علی آتش کی اس غزل کو سیکنڈ ایئر یا کم از کم فرسٹ ایئر میں شامل کیا جانا چاہئے تھا بلکہ اسکی فرسٹ ایئر سیکنڈ ایئر میں بھی حاجت نہ تھی۔ نہم کلاس میں تو ہلکی پھلکی غزلیں شامل ہونی چاہیے تھیں جس سے صرف ہم طالب علموں کو غزل کی پہچان کروا سکتے حالانکہ دہم کلاس کی اردو کا انتخاب نہایت محتاط اور موزوں ہے جس میں خواجہ میر درد شامل ہے جنکی غزل میں صوفیانہ رنگ ہے۔
نہم کلاس میں حیدر علی آتش کی ایسی غزل کہ جس میں محبوب کے خد و خال بیان کرکے رکھ دئیے گئے ہوں کو نہم کلاس کے بچوں کیلئے شامل کرنا میں سمجھتا ہوں زیادتی ہے بلکہ مجھے کہنے دیجئے کوئی سازش ہے اس غزل کا مقطع ہی لیجئے
زنخداں سے آتش محبت رہی
کنویں میں مجھے دل ڈبویا کیا
محبوب کی ٹھوڑی میں پڑھنے والے گڑھے کو جب آپ تیرہ، چودہ سالہ بچے یا بچی کو پڑھائیں گے تو وہ ادب سے جو اخذ کرے گا آپ جانتے ہونگے پاکستان میں مخلوط نظام تعلیم اپنی جگہ ایک الگ مسئلہ ہے اس پر ایسا نصاب پڑھایا جائے کہ جب لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پڑھ رہے ہوں تو ان پر آتش کا کلام دو آتشہ کام کر جائے گا آپ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ میں ہماری نوجوان نسل بہکتے ہوئے کہیں کی کہیں جا پہنچی ہے یہ ایک انسانی نفسیات بھی ہے کہ ہم دلکش باتوں کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں دلکشی سے میری مراد قارئین سمجھتے ہونگے یا یوں کہئے کہ انسان بہکنے میں زیادہ وقت نہیں لیتا جبکہ سنبھلنے میں اسے زمانے لگتے ہیں بچے جو ابھی پختہ ذہن نہیں رکھتے انہیں بھلے برے کی تمیز کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ایسے میں جب آپ انہیں سکول کی تعلیم میں ہی اتنے مضبوط جذبوں کی باتیں پڑھائیں گے تو انکا میلان اس جانب کچھ زیادہ ہو جائے گا اور تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ ذہنی طور پر تقسیم ہوکر رہ جائیں گے اور یہی تقسیم انہیں زندگی بھر کے لئے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ کس معاشرے کی تعلیم حاصل کرکے یہاں تک پہنچے ہیں اس پر ہمارے کچھ اساتذہ کرام بھی ادب کو جس طرح لہک کر پڑھاتے ہیں اسکی مہک دور تک جاتی ہے اب اساتذہ کا بھی کیا قصور کہ یہ مضمون ہی ایسا ہے جس میں سنجیدہ رہنا رنجیدہ رہنے کے مترادف ہے لہذا ہمارے تعلیمی نصاب کو ترتیب دینے والے نصاب مرتب کرتے ہوئے اس بات کی گنجائش تو رکھیں کہ وہ کس عمر کے طالب علموں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے سارا ادب ہی نہم۔ کلاس میں دے دیا گیا ہے اس لئے تعلیمی رہنمائوں اور نصاب ترتیب دینے والوں پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان گزارشات پر التفات فرمائیں جو راقم نے اس کالم میں پیش کردی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button