ColumnQadir Khan

کیا تاریخ ہمیں معاف کرے گی ؟

قادر خان یوسف زئی
اسرائیل نے ظلم کی وہ حدیں پار کر لی ہیں جہاں سے پہلے ہی انسانیت کی سرحدیں ختم ہو چکی تھیں۔ فلسطینیوں پر کیے جانے والے حملے، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی جانیں لینا، اور غزہ و لبنان کے نہتے عوام پر بمباری کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسرائیل نے طاقت کے نشے میں یہ فراموش کر دیا ہے کہ انسانیت کا ایک اصول ہوتا ہے، جنگوں کا بھی ایک ضابطہ ہوتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ کہ ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری اسرائیل کی جارحیت اور ظلم و ستم کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، بلکہ ایک ایسی دنیا میں بھی بستے ہیں جہاں انسانی اقدار کا خون بہایا جا رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں، جہاں انسان نے چاند اور مریخ کو چھو لیا ہے، ایجادات اور ترقی کے نئے افق سر کیے جا رہے ہیں، وہیں انسانیت کے نام پر کیے جانے والے مظالم اتنے پرانے اور خوفناک ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم دوبارہ زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ چکے ہیں۔زمانہ جاہلیت وہ دور تھا جب نہ کوئی قاعدہ تھا، نہ قانون۔ جہاں جس کے ہاتھ میں طاقت تھی، وہی حکمرانی کرتا تھا۔ انسانیت اور اخلاقیات کی کوئی سرحد نہیں تھی اور طاقتور جسے چاہتا، کچل دیتا۔ آج اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم کو دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ ہم اُسی تاریک دور میں واپس جا چکے ہیں۔ وہ وقت جب مظلوم کے لیے انصاف کا کوئی تصور نہیں تھا، جہاں کسی کی زندگی کی کوئی قیمت نہ تھی، اور طاقتور جو چاہتا، کر گزرتا۔
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل نے جو ظلم اور وحشیانہ خون ریزی کا بازار گرم کیا ہے، اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لیکن حیرت اور افسوس اُس پر نہیں جو اسرائیل کر رہا ہے، بلکہ اُس مغربی دنیا پر ہے جو خود کو انسانیت کا علمبردار کہتی ہے۔ یہ وہی مغرب ہے جو ہمیں انسانی حقوق کا درس دیتی ہے، جو کہتی ہے کہ ہر انسان کی جان قیمتی ہے، اور جو جانوروں پر تشدد کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جو عالمی فورمز پر خطرناک اسلحے کے پھیلا کو روکنے کے لیے قانون بناتی ہے، اقوامِ متحدہ جیسے اداروں میں بڑی بڑی تقریریں کی جاتی ہیں، اور ماحولیات کے بگاڑ کو درست کرنے کے لیے ہر سال بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ آج جب اسرائیل فلسطینیوں و لبنانی عوام پر وحشیانہ بمباری کر رہا ہے، تو وہی مغربی طاقتیں جو انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، خاموش ہیں۔ جہاں اسرائیل کے خلاف بولنے کی ضرورت ہے، وہاں ان کی زبانیں بند ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر جنگیں چھیڑتے ہیں، دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، اور جمہوریت کے فروغ کے نام پر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کی خاموشی ان کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرتی ہے۔ یہ خاموشی دراصل اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا درس صرف وہاں دیا جاتا ہے جہاں مفادات ہوں۔ جب معاملہ اسرائیل کا آتا ہے، تو یہ حقوق بھول جاتے ہیں۔ اس وقت مغربی دنیا کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ان کے لیے انسانی حقوق کا کوئی حقیقی مطلب ہے یا یہ صرف ایک سیاسی حربہ ہے؟۔
یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ مغربی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر انسانی حقوق کی دہائی دیتی ہیں۔ اگر فلسطین کے معاملے میں وہ واقعی مخلص ہوتیں، تو اسرائیل کو لگام ڈالی جا چکی ہوتی۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مغربی دنیا کی یہ خاموشی اور اسرائیل کی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ صرف ایک ہتھیار ہے جسے وہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ فلسطینی عوام کو انصاف دلانا مغربی دنیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن اس کے بجائے وہ اسرائیل کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں، فلسطینی عوام دنیا کے سامنے مظلوم اور بے یار و مددگار نظر آتے ہیں۔ دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی ایک مہذب دور میں جی رہے ہیں، یا پھر طاقت کے بل بوتے پر ظلم اور جبر کا راج ہے؟ انسانیت کے نام پر کی جانے والی یہ زیادتیاں اور بے حسیاں ہماری تہذیب کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہیں۔ اسرائیل کے مظالم نے ثابت کر دیا ہے کہ طاقتور کی طاقت کے آگے کوئی اصول، کوئی قانون، اور کوئی ضابطہ کارگر نہیں ہوتا۔
حال ہی میں، ایران کے خلاف اسرائیل کی ممکنہ جارحیت اور اس کے حملوں کی خبروں نے دنیا کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں اسرائیل کی پالیسیاں پہلے ہی فلسطین میں ظلم و ستم کی ایک مثال بن چکی ہیں، وہیں اب اس کی نظریں ایران کی طرف مائل ہیں۔ اس موقع پر مسلم اکثریتی ممالک، خصوصاً عرب ممالک، کے لیے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر انہوں نے اسرائیل کے حملے کی حمایت یا اس میں خفیہ یا بلواسطہ سہولت فراہم کرنے کی کوئی بھی کوشش کی، تو یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی جس کے نتائج پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ ماضی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب مسلم دنیا نے آپس میں تقسیم ہو کر بیرونی دشمنوں کی مدد کی، تو اس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی اور پشیمانی کی صورت میں سامنے آیا۔ عباسی خلافت کا زوال، بغداد کا سقوط، اور اسپین کی مسلم حکومتوں کی شکست ان ہی تقسیموں اور غداریوں کا شاخسانہ تھیں۔ مسلم دنیا، خاص طور پر عرب ممالک، کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اسرائیل کی جارحیت کا ہدف صرف ایک ملک نہیں ۔ اسرائیل کی فوجی پالیسیاں اور توسیعی عزائم پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے پنجے گاڑھنے کے لیے ہیں۔
فلسطین میں جاری مظالم کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب بھی مظلوم کا ساتھ چھوڑا گیا، تو ظالم مزید طاقتور ہوا۔ یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنے حکمرانوں سے یہ سوال پوچھے کہ کیا وہ تاریخ کے صحیح طرف کھڑے ہیں؟ کیا وہ انصاف کے اس عظیم مقصد کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس کی بنیاد پر ان کی تہذیب کھڑی ہے؟۔ آج کے دور میں، جب اسرائیل نے ظلم کی حدوں کو پار کر دیا ہے، عرب ممالک کے حکمرانوں کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ تاریخ کے صحیح رخ پر کھڑے ہوں۔ وہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ مسلم دنیا آج بھی انسانیت کی علمبردار ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف عرب دنیا کی سیاست کو بدل سکتا ہے، بلکہ آنے والی نسلوں کی تقدیر کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button