تخت دلی اور جمہوری نظام
تجمل حسین ہاشمی
سلطان نے سکون سے یہ باتیں سنیں اور بولا ’’اگر میں مسلمانوں پر خون بہائے بغیر حکومت نہیں کر سکتا تو میں تخت سے علیحدہ ہو جائوں گا، میں کسی مسلمان کو قتل کرکے خدا کے عذاب کا سامنا نہیں کر سکتا۔‘‘ جلال الدین خلجی کو بلاوجہ انسانی خون بہانے سے چڑ تھی۔ راجستھان میں ایک مہم کے دوران اسے احساس ہوا کہ اس مہم میں بہت انسانی خون بہے گا تو اس نے وہ مہم ترک کردی، جب اس کے قریبی امیر احمد نے اسے طعنہ دیا تو جلال الدین خلجی نے کہا میری عمر اس وقت 80برس ہوچکی ہے، اس وقت مجھے انسانی خون بہانے کی بجائے اپنی موت کے بعد خدا کے حضور پیش ہونے کی تیاری کرنی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جلال الدین خلجی بزدل تھا، اس نے منگولوں کیخلاف جنگیں لڑیں اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ امیر خسرو نے لکھا کہ جلال الدین خلجی سمجھتا تھا بادشاہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ صبر اور برداشت کے ساتھ حکومت کرے اور رحم دلی کا مظاہرہ کرے۔ جلال الدین خلجی کا صرف ایک ایسا واقعہ ملتا ہے جس میں اس نے ظلم کیا۔ وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے: سلطان خلجی کو بتایا گیا کہ دلی میں ایک درویش رہتا ہے جو اپنے آپ کو خلیفہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دلی کے امراء بشمول سلطان کے بیٹے اس کے مرید تھے۔ سلطان خلجی نے درویش کو بلایا اور سمجھانے کی کوشش کی، ناکامی کے بعد سلطان کے منہ سے نکلا کوئی ’’میری اس ملا سے جان چھڑائے گا؟”ساتھ میں کھڑے سپاہی نے تلوار نکال کر اسے گھونپ دی۔ سلطان خلجی کے بڑے بیٹے کے حکم پر اس درویش کو ہاتھیوں کے قدموں کے تلے کچل دیا گیا۔ اس ظلم کے بعد دلی شہر پر عذاب نازل ہوا۔ شہر کو ایک آندھی نے گھیر لیا۔ چند دن بعد سلطنت میں شدید قحط پڑا۔ دلی کے ایک اور سلطان کی لاش گرنے کا وقت آگیا تھا۔ اب باری جلال الدین خلجی کی تھی۔ سازش تیار ہوچکی تھی۔ وہ جس کو اپنا بیٹا سمجھ کر گلے لگانے کیلئے آگے بڑھا اسی نے تلوار اس کو ماری۔ سگا بیٹا جو نہ تھا لیکن جلال الدین خلجی نے عمر بھر اسے اپنے بچوں کی طرح پیار کیا تھا۔ علائو الدین خلجی کو اس نے بچپن سے اپنے بیٹے کی طرح پالا ہے، وہ اس کا داماد ہے، وہ بیٹا ہے، وہ کیسے میرے خلاف بغاوت کر سکتا ہے ۔ مؤرخ لکھتا ہے کہ سلطان کا خوبصورت دل اپنے پیارے بیٹے کے دماغ اور دل میں پلنے والی نمک حرامی کو پڑھنے میں ناکام رہا تھا۔ علائو الدین خلجی جو اس کا منہ بولا بیٹا تھا، اس کے سپاہیوں نے خلجی کا سر کاٹ کر علائو الدین کے قدموں میں ڈال دیا۔ کٹی گردن سے خون جاری تھا کہ علائو الدین کو تاج پہنا دیا گیا۔ دلی کے تخت کیلئے کئی سلطان قتل ہوئے، مسلمان خلجی بھی قتل ہوچکا تھا۔ تخت بادشاہ کا ہو یا جمہوری وزیراعظم کا لیکن اس پر بیٹھا انسان ہے جو طاقت کے نشے کا شکار ہے یا وہ کسی اپنے کا شکار ہے۔ پہلے وقتوں میں تخت نشینی کیلئے خون خرابے قتل و غارت کی جاتی تھی لیکن اب اس نئے جمہوری نظام میں بندے قتل نہیں ہوتے لیکن بندوں کے حق رائے دہی کو سلب کیا جاتا ہے، بندوں، ملکوں کو معاشی غلام بنایا جاتا ہے۔ معاشی تنگدستی کے خوف سے انسانوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ مرضی کے بندوں کو منتخب نمائندے بناکر سامنے لاکر وہ فیصلے کرائے جاتے ہیں جو قتل سے زیادہ خوف ناک ہیں۔ جہاں ووٹ نہیں فارم کی تبدیلی، جی حضوری سے حکمرانی ملتی ہے۔ محافظوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ جو چاہو، جیسے چاہو لوٹ مار کرو، بس ہمارے حکم کے آگے کچھ نہیں کہنا۔ دوسرے کی ڈکٹیشن پر اپنے نظام کو داغ دار کرتے سالوں بیت گئے ہیں۔ تاریخی حکومت بناکر بھی دیکھ لیا ہے، ایسی تاریخی حکومت جس میں باپ بیٹا، بیٹی چاچا بھتیجا پھوپھی سب منتخب ہیں۔ سب ملک کا اچھا چاہتے ہیں، اچھا ہو نہیں رہا، بس نظام کو مینیج کرتے ہیں، پھر ان کے مفادات مینیج ہوتے ہیں، سمجھ نہیں آ رہی کہ ملک سے وفا کس شے کا نام ہے، اسمبلی جو قانون سازی کی جگہ ہے وہاں سیاست چل رہی ہے۔ دہشت گردی پر متفق ہیں لیکن لوٹ مار پر خاموشی ہے۔ ہر بندہ ہاتھ میں خنجر لئے بیٹھا ہے، وزیراعظم صاحب قرضہ اتارو ملک سنوار کے اعلانات کر رہے ہیں، اربوں ڈالر کے کاروبار کرنیوالے حکمران آزاد ہیں۔ دنیا کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کا سب کچھ باہر ہے لیکن اس مہم میں تنخواہ دار طبقہ کو یہ حق ادا کرنا ہے، آج 10اکتوبر ہے، محسن پاکستان کو ہم سے بچھڑے دو سال گزر گئے ہیں، اللہ پاک قدیر خان کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا کرے، امین۔ حق تو ان لوگوں نے ادا کیا، قوم کو فخر دیا اور اپنے ملک کی خاطر اپنی جان کو بے سکون کیا۔ ایسے ہیرے قوم کے ہیرے ہیں۔