ColumnRoshan Lal

غزہ جنگ، قراردادیں اور اسلحہ مارکیٹ

روشن لعل

7اکتوبر 2024ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں فلسطینیوںسے اظہار یکجہتی کے نام پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی،فلسطینی عوام پر ظلم و جبر کے خاتمے، فلسطینیوں پر کیے گئے ظلم اور جنگی جرائم کی اسرائیل سے جوابدہی اور فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ 29نومبر کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی منانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میںکیے گئے مطالبات ہر طرح سے جائز ہیں مگر اس کے باوجود اس سوال کو بھی بلاجواز قرار نہیں دیا جا سکتا کہ فلسطینیوں کی حمایت کے نام پرا سلام آباد میں جو سرگرمی ہوئی کیا اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ زیادہ سوچ بچارکیے بغیر اس سوال کا ، فوری جواب یہ ہی کہ عرصہ دراز سے جاری آل پارٹیز کانفرنس جیسی سرگرمیوں کا نہ ماضی میں کبھی فلسطینیوں کو کوئی فائدہ ہوا نہ ہی اب ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان میںآل پارٹیز جیسی سرگرمیوں سے کوئی کیا توقعات وابستہ کرے جب عرب ممالک کی ایسی سرگرمیوںکا نتیجہ بھی محض نشستاً ، گفتاً ، برخاستاً ہی ہوتا ہے ۔
گزشتہ برس 7اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر راکٹ برسائے اور میوزک فیسٹیول پر حملہ کرکے وہاں سے اسرائیلیوں سمیت مختلف ملکوںکے شہریوں کو اغوا کیا، اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے شہریوں پر گولہ باری کرتے ہوئے جو جنگ برپا کی وہ اب تک جاری ہے۔ گزشتہ برس سے جاری اس جنگ میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو ہر روز نئے جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے ظلم و ستم کی ایسی مثالیں قائم کر رہا ہے جو قبل ازیں صرف ہٹلر سے موسوم تھیں۔ نیتن یاہو نے حماس کے حملوں کے جواب میں نہ صرف غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر کے وہاں 42ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا بلکہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کی گزشتہ 32برس سے قیادت کرنے والے حسن نصراللہ کو بھی اپنے راکٹوں اور میزائلوں کا نشانہ بنا کر ختم کر دیا۔ اسرائیل نے صرف غزہ پر بمباری کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایران ، لبنان اور شام پر راکٹ اور میزائل فائر کر کے جنگ کا دائرہ وسیع تر کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کے ساتھ مجموعی طور پر حماس، حزب اللہ اور ایران کے کئی سرکردہ لوگوں کی بھی ٹارگٹ کلنگ کی۔
گزشتہ ایک برس کے دوران اسرائیل فلسطینیوں کے بھاری جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ شام ، لبنان اور ایران کو بھی براہ راست اپنا نشانہ بناچکا ہے۔ گو کہ ایران نے براہ راست اسرائیلی حملوں کاجواب اپریل اور جولائی2024ء میں سیکڑوں میزائلوں کی بارش کر کے دیا لیکن آئرن ڈوم جیسے مضبوط دفاعی نظام کے سبب اسرائیل کسی قابل ذکر نقصان سے محفوظ رہا۔ ان حالات میں دیگر مسلم اکثریتی ملکوں کے حکمرانوں نے قراردادوں کی شکل میں اسرائیل کی غزہ میں جاری بے رحم کارروائیوں کی مذمت تو کی لیکن نہ کبھی للکارا اور نہ کہیں یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ ایران کی طرح اسرائیل کے خلاف کوئی مسلح کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلم اکثریتی ملکوں کے حکمرانوں کے اس رویے کو مسلمانوں کے بعض حلقے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
یاد رہے کہ جن ملکوں کے مسلمان حکمرانوں کو اسرائیل کے خلاف مسلح کاروائی نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، ماضی میں ان ملکوں کی حکومتوں نے فلسطینیوں کی سرزمین پر بسائے گئے 33فیصد یہودیوں کو فلسطینی علاقے کا 55 فیصد اور 67فیصد فلسطینی عربوں کو 42فیصد علاقہ دینے کے بین الاقوامی قوتوں کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کر اسرائیل پر حملہ کر دیا تھا۔ عالمی دھڑے بندیوں میں کمزور دھڑا ہونے کی وجہ سے عرب مسلمانوں کے اتحاد کو اسرائیل کے مقابلے میں ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ عرب ملکوں کے اتحاد کو نہ صرف فلسطین کے مسئلہ پر لڑی گئی تمام جنگوں میں شکست ہوئی بلکہ یاسر عرفات کی قیادت میں پی ایل او نے اسرائیل کے خلاف جن گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا وہ کارروائیاں بھی فلسطینیوں کو اسرائیل کے خاتمے اور آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے قریب نہ لاسکیں۔ اسرائیل کے خلاف بنایا گیا عرب ملکوں کا اتحاد انتہائی غیر موثر ثابت ہونے اور پی ایل او کی کارروائیوں کے لیے زمین تنگ ہونے کے بعد ہی یاسر عرفات اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ یاسر عرفات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو رد کرتے ہوئے حماس نے اسرائیل کے خلاف اسی طرح کی کاروائیوں کا آغاز کردیا جو یاسر عرفات اور پی ایل او کے لیے بے سود ثابت ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد حماس نے جب بھی اسرائیل پر حملہ کیا ، غزہ کے فلسطینیوں کو اس حملہ کے بعد اسرائیلی جواب کے نتیجے میں شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مرتبہ بھی غزہ کے فلسطینیوں کو گزشتہ ایک برس سے جس نسل کشی کا سامنا ہے اس کا آغاز بھی حماس کے7اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر راکٹوں سے کیے گئے حملے کے بعد ہوا۔
غزہ میں ایک برس سے جاری جنگ شروع کرنے کے بعد حماس کے لوگ اس وقت بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں جبکہ ایرانی انتظامیہ نے پہلے صرف سخت ترین بیانات جاری کرتے رہنے کے بعد اس وقت اسرائیل پر میزائل داغے جب اس نے براہ راست ایران کو نشانہ بنایا۔ ایران کے برعکس پاکستان سمیت دیگر مسلمان ملک اپنی ماضی کی ناکامیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے خلاف صرف کانفرنسیں منعقد کرنے اور ان کانفرنسوں میں قراردادیں پیش کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو یورپ اور امریکہ جیسی بین الاقوامی طاقتوں کی جو حمایت ، تعاون اور امداد حاصل ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ ایران کسی طرح اسرائیل کو بے بس کر سکتا ہے یا دیگر مسلمان ملکوں کی اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قرار دادیں فلسطینیوں کے حق میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ ختم کروانے کے لیے صرف اسلامی دنیا میں منعقدہ کانفرنسوں کے مطالبات ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ میں پیش اور منظور کی جانے والی قرار دادیں بھی غیر موثر ثابت ہو چکی ہیں ۔ ان قراردادوں کے غیر موثر ہونے کی وجہ دنیا کی وہ بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں ہیں جن کے سٹاکس میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد 37بلین ڈالر کا بے مثال اضافہ ہو چکا ہے ۔ واضح رہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے جس اقوام متحدہ کی قراردادیں غیر موثر ثابت ہو رہی ہیں اس اقوام متحدہ میں ویٹو کی طاقت رکھنے والے پانچ ملکوں میں سے امریکہ، فرانس ، روس اور چین کا شمار دوسرے ملکوں کو اسلحہ برامد کرنے والے دنیا کے پانچ بڑے ملکوں میں ہوتا ہے ۔ان ملکوں میں سے امریکہ اور یورپی ریاستیں نہ صرف اسرائیل بلکہ عرب ملکوں کو بھی اسلحہ فروخت کرتی ہیں جبکہ ایران کا انحصار چین اور روس سے خریدے گئے اسلحے پر ہے ۔ ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تباہ و برباد ہوچکے غزہ میں جنگ آخر کیوں بند نہیں ہورہی۔

جواب دیں

Back to top button