اب کون پھر بکے گا عصر جدید میں؟

تحریر : صفدر علی حیدری
توڑ پھوڑ جاری ہے۔ جانے کب سے، نجانے کب تک؟
اس تغیر زدہ کائنات میں تعمیر و تخریب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہر آن پہلو بہ پہلو۔ ہر جگہ جسے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے ۔ ہاں البتہ تعمیر کم ہے اور تخریب حد درجہ زیادہ ۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ اس رزم گاہِ حیات کا لازمہ ہے۔ خارج میں بھی جس کا میدان ہے اور داخل میں بھی ۔ کوئی اس سے کبھی بچ نہیں پایا کہ زوال سدا ہر عروج کے درپے ہے۔
آج ’’ طاغوتی محفل‘‘ سجی ہے اور ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ شیطان اور اس کے کارندے اس ’’ مشاورتی‘‘ اجلاس میں موجود ہیں۔ ہر نظام کے بانیوں کی طرح انہیں بھی اس کے دوام کی فکر ہے۔ غرور کے پتلے ابلیس کے ابتدائی کلمات غور طلب ہیں۔ ’’ آج اس جہاں کو غلط روش پر رواں دیکھ کر وہی خالق جس نے صرف ’’ کن‘‘ کہہ کر اسے تخلیق کیا تھا اور جو اسے ’’ جہانِ کن فیکون‘‘ کہتا تھا، خود اسے ختم کرنے پر مائل ہے ‘‘۔
فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے ہی تو دکھایا تھا اور یہ میں ہی تھا جس نے مسجد اور دیر و کلیساء کا فسوں توڑ دیا ۔ ناداروں کو تقدیر کا درس بھی میں نے ہی دیا۔ مال داروں کو میں نے ہی سرمایہ کاری کے جنون میں مبتلا کر ڈالا۔ میری دہکائی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنا بھلا کس کے بس میں ہے؟، انسانی روش کا پرانا درخت جس کی آبیاری میرے ہاتھوں ہوئی ، اس کا سر بھلا کون جھکا سکتا ہے؟۔
اب پہلا مشیر اپنی بات کا آغاز کچھ یوں کرتا ہے’’ تیرے اس نظام کی پائیداری پر بھلا کس کو شک ہو گا؟ جس نے اکثریت کو سوائے غلامی کا اسیر بنانے ، تقدیر کے آگے سر جھکانے اور اطاعت قبول کر لینے کے اور کچھ سکھایا ہی نہیں ۔ یہ ہماری پیہم کوشش کی کرامت ہے کہ صوفی و ملا ’ ملوکیت ‘ کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ۔ طبع مشرق کے لیے یہی افیون موزوں ہے۔ علم کلام کے ہنگامے اور حج و طواف اگر باقی ہے تو کیا ہوا؟ ۔۔۔ ۔۔ ( تیری نماز بے حضور ، تیرا امام بے حضور ) مومن کی تلوار کند ہو کر رہ گئی ہے اور اس دور میں جہاد مرد مسلمان پر حرام ہے۔
اب دوسرا مشیر کہتا ہے ’ تمہارا خیال ہے کہ ہم کامیاب جا رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو جمہوریت کیوں پنپ رہی ہے؟ اس کے عروج کے بارے بھی کچھ ارشاد ہو کہ یہ کس حد تک مناسب ہے ؟ لگتا ہے تجھے اس ابھرتے فتنے کی خوفناکی سے آگاہی نہیں‘ ۔ جواباً پہلا مشیر کہتا ہے ’ میرا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ جمہوریت خالص بادشاہت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں شاہی ایک جدید لباس اوڑھ لیتی ہے۔ آدم کو سوجھ بوجھ کی طرف مائل اور تبدیلی پر قائل دیکھا تو ہم نے اسے اسی پرانی بادشاہت کو جمہوریت کا چولا پہنا دیا۔ ہمیں اس سے کیا ڈر کہ اس کا صرف چہرہ نرم ہے۔ ورنہ تو یہ نظام چنگیزیت سے زیادہ تاریک اور سیاہ ہے‘۔
تیسرا مشیر اپنی بات کچھ یوں بیان کرتا ہے ’ حکومت کے طور طریقوں میں کوئی بھی تبدیلی ہو، اگر بادشاہوں والی روح ان میں باقی رہے تو ہمارے لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ ہاں مگر الجھن مارکس کی شرارت سے ہے۔ اس کا کیا جواب دیا جائے ؟
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل وارد کتاب
موجودہ نظام ریاست کے اس ناظر کی نظر ایسی غضب کی ہے کہ اس نے اشیاء پر پڑے سارے پردے جلا ڈالے ہیں اور یہ وہ تیز نظر ہے جو مشرق و مغرب کی قوموں کے حال اور ماضی کا احتساب کرتی ہے۔
چوتھا مشیر اس کا جواب دیتا ہے ’ اس سیاست اور معاشرت کی فکر نہ کہ اس کا توڑ شروع ہو چکا ہے جو تجھے عظیم رومن سلطنت کے حکومتی نظام میں مل جائے گا۔ سیزر کے لوگوں کو ہم نے سیزر کی طاقت سے بھرپور سیاست سکھا دی ہے‘ ۔ تیسرا مشیر پھر سے گویا ہوتا ہے ’ میں تو اس کی دور اندیشی کی قدردانی نہیں کر سکتا جس کی عقل نے انگریز کی سیاست کے دائو پیچ سب کے سامنے عیاں کر دینے کی غلطی کی ۔ یہ عمل تو اس کے بھی مفاد کے خلاف تھا‘۔
اب پانچواں مشیر خوشامدی لہجے میں ابلیس سے کہتا ہے ’ تیرے سانسوں کی گرمی سے دنیا بھر کا نظام قائم ہے ۔ تو جسے چاہتا ہے بے نقاب کر ڈالتا ہے۔ فطرتِ آدم کا تجھ سے بڑا عالم کوئی دوسرا نہیں ہوا۔ ہر وقت ذکر و طواف میں مشغول فرشتے، تجھ سے ملنے والی غیرت کے باعث سر جھکائے شرمسار رہتے ہیں۔ اس ایرانی مزدک کے دوسرے جنم، اس فتنہ پرور یہودی ( مارکس) کی دیوانگی کے ہاتھوں ہر قبا تار تار ہونے کو ہے۔ ہم جسے اپنی حماقت کے سبب مٹھی بھر مٹی کی منتشر دھول سمجھتے رہے ، آج وہ آسمان کی وسعتوں پر چھا گئی ہے اور اس کی دہشت سے پہاڑ تک کانپتے ہیں سو اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے آقا ! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
ابلیس اب یہ مناسب سمجھتا ہے کہ وہ اس تقریب کا اختتام اپنے ’ عاجزانہ‘ خطاب سے کرے ( جو اس تقریب کے سب شرکاء کے لئے حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے) ۔۔۔ ’ یہ جہان ِرنگ و بو میرے قبضے میں ہے ۔ سیاسی لیڈر ہوں یا مذہبی ، میری آواز سب کی عقل سلب کر لیتی ہے ۔ میرے نظام کو کانچ کا گھر کہنے والے احمق اسے توڑ کر تو دکھائیں ۔ یہ پریشاں روزگار ، آشفتہ سر ، آشفتہ ہو ’ اشتراکی کوچہ گرد‘ مجھے کب ڈرا سکتے ہیں ؟، مجھے محض امت مسلمہ سے خطرہ ہو سکتا تھا مگر ۔۔۔ یہ آگ اب ایسی راکھ بن چکی ہے جس میں امید کی کوئی چنگاری باقی نہیں بچی۔ مومن کی روش قرآنی نہیں سودی بن چکی ہے۔ مشرق کی اس تاریک رات میں مذہبی رہنمائوں کے پاس راہ دکھانے والی حقیقی روشنی بھی نہیں رہی مگر پھر بھی خطرہ ہے کہیں یہ شریعت سے رجوع نہ کر لیں کہ زندگی کے اس دستور میں ہمارے غلامانہ نظام کو ختم کرنے پوری اہلیت موجود ہے۔ یہ نظام، دولت کو زکوٰۃ سے پاک کرتا، محتاجوں پر خرچ کراتا اور اسے بے مصرف پڑے رہنے سے بچاتا ہے ۔ لیکن ہمارے حق میں موجودہ صورت حال بڑی مفید ہے کہ یہ مسلمان اپنا مذہبی ذوق وشوق، مذہبی رسومات اور علوم کے باریک بیں مطالعے میں لگا دے یا دین کی خدمت کے شوق میں کتاب الٰہی کو نئے نئے علوم اور معلومات کی روشنی میں عقل کے مطابق ثابت کرتا اور دور دور کے جدید معنی نکالتا رہے ۔ اس مد ہوش کو فکری لات و منات میں مدہوش رکھو۔ اسے خیالی شعر و ادب اور عجمی تصوف کی طرف رغبت دلائو تا کہ زندگی کا عملی پہلو اس کی نظروں سے اوجھل رہے‘۔
کوئی پون صدی قبل لکھی گئی ’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘ پڑھے مجھے بہت زیادہ دن نہیں ہوئے لیکن تب سے اب تک میرے اندر بت شکنی کا عمل جاری ہے۔ وہ بت جنہیں بناتے ہوئے ہاتھ زخمی ہو جایا کرتے تھے ، ٹوٹے ہیں تو ان کی کرچیوں سے روح مجروح ہوئی جاتی ہے۔ کمال اس مرد قلندر کا نہیں کہ جس کی مومنانہ فراست سے ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے ایک ہی نظم میں سمٹ کر رہ گئے ہیں، کمال تو اس امت مسلمہ کا ہے کہ جس نے سورج جیسی روشن حقیقت دیکھ کر بھی ظلمت کا سفر ترک نہیں کیا اور آج ہمارے اپنے ہمیں حرف غلط کی طرح مٹا دینے کے درپے ہیں اور یہ سب بھی شاید کسی دینی جذبے اور مسلکی خدمت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ابلیسی پالیسی کامیاب رہی ۔ اس نے ہمیں کلیتہً لا مذہب و ملحد بنانے کی بجائے ہمیں ’ روح بلالی ‘ سے محروم کر دیا اور یوں تماشائے حیات ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
رہی سہی کمی مذہب کے تنگ لباس نے پوری کر ڈالی۔ سو بھائی سے اب بھائی صرف جدا ہی نہیں، اسکا وجود ایک دوسرے کے لیے باعث سزا بھی ہے۔ فلسطین کی نہ سہی ، ہر اسلامی ملک کو دوسرے کی نہیں تو کم از کم اپنی فکر تو ضرور کرنی چاہیے ۔ بہتر ہے عوام اب تو کچھ بہتر سوچ لے کہ یہ سارے عذاب ان کے اپنے حکمرانوں کے وجود کا ’’ فیض ‘‘ ہے ۔ امت میں حریت کی روح کو جو ایمانی حرارت درکار ہے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ سو اس راکھ کے ڈھیر میں کوئی چنگاری ہے ہی نہیں۔ اور اگر ہے بھی تو یہ صرف اپنا دامن جلاتی یا کسے اپنے کا ۔ یہ بھڑکتی آگ بڑھتی جا رہی ہے اور اسے بآسانی دیکھا بھی جا سکتا ہے۔ جبھی تو تخریب بہت زیادہ ہے اور تعمیر بہت کم ۔۔۔۔ کوئی اس سے کبھی بچ نہیں پایا کہ زوال سدا ہر عروج کے درپے ہے ۔۔۔۔۔ آج کسی کی کل ہماری باری ہے کہ برادران یوسف اب تک زندہ ہیں اور المیہ یہ کہ شرمندہ بھی نہیں۔ سو بازار پھر سجا ہے اور ماں جائے کی پھر سے بولی لگ رہی ہے۔۔۔۔
اب کون پھر بکے گا عصر جدید میں؟
بھائی تو گھر کے سارے یوسف فروش ہیں





