ColumnTajamul Hussain Hashmi

ہم ہمسائے نہیں بدل سکتے

تجمل حسین ہاشمی
ہماری تیسری یا چوتھی نسل آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، جمہوری عمل جاری ہے، انتخابات ( حق رائے دہی) کا عمل کئی بار مکمل ہوچکا بلکہ ابھی تک جاری ہے، لیکن اس جمہوری پراسیس پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں، سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر مقدمات کی سیریز قائم کی، ماضی میں الزامات کا سہارا لیا جاتا رہا اور اب گندی وڈیو، گندی وڈیوز کو فیملی اور مارکیٹ کرکے خود کو جمہوری ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے، ابھی تک ہمارے اندرونی اختلافات کی شدت کم نہیں ہوسکی، چیئرمین بلاول بھٹو نے گزشتہ روز اسمبلی میں ٹھیک فرمایا کہ ’’یہ سلسلہ کب تک چلے گا، جمہوریت کیلئے قربانیاں دیں، میثاق جمہوریت کیا۔‘‘ آمریت کا دور بھی کافی لمبا رہا لیکن اختلافات، سیاسی افراتفری اور اقتصادی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی، معاشرہ اپنی روایات کو کھونے لگا۔ بدتہذیبی گلیوں میں ناچ رہی ہے۔ پنجابی، پٹھان، بلوچ، مہاجر آپس میں تقسیم کئے گئے۔ نفرت، تفریق اپنے ڈیرے جما چکی ہے۔ اندرونی معاملات میں نفرت، تقسیم اور لاقانونیت کو بڑھاوا دینے میں ہمسایہ ممالک کا کردار بھی کافی اثرانداز ہورہا ہے۔ کئی سو افراد اس بات پر قتل کئے گئے ہیں کہ ان کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے، وہ غریب پنجابی ہیں۔ ماضی میں پڑوسی ممالک کے حوالہ سے کئے گئے فیصلوں میں پارلیمنٹ کا کردار اتنا موثر نہیں رہا تھا جتنا ہونا چاہئے تھا۔ یہی سیاسی کمزوری رہی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست دانوں کو اپنی اہمیت کی سمجھ نہیں یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کے فیصلوں سے ثابت ہے کہ ان کو ذاتی مفادات اور اقتدار میں رہنے کی لگن نے اندھا کئے رکھا۔ ان کے غلط فیصلوں نے عوام کو معاشی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں طاقتور سمجھے جانے والے حلقے بھی ملکی معیشت سے زیادہ غیر ملکی طاقتوروں کے حکم کی تعمیل میں لگے رہے، پرائی جنگوں میں پڑ کر اپنے دشمنوں کی لسٹ میں اضافہ کیا۔ 20 سال تو صرف اپنے پڑوسی افغانستان کی جنگ میں الجھے رہے، اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے طاقتور امریکہ کے حکم کی بجا آوری نے ملک کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ اپنے لوگوں کو شہید کرایا، اپنے خلاف نفرتوں کو پیدا کیا۔ جمہوری رہنمائوں سے لیکر فیصلہ سازوں تک نے عوامی مفادات کو نظرانداز کرکے اپنے لئے کاروبار اور اپنی نسلوں کیلئے ویزے حاصل کئے۔ ڈالر کی محبت نے ایسا نچایا ہے، جس کا نتیجہ آج پھر ایک آپریشن کی ضرورت ہے۔ پہلے صرف دہشت گرد تھے، اب معاشی دہشت گردوں کو بھی روکنا ہوگا۔ قیام سے آج تک چوروں، کرپٹ عناصر، رشوت خوروں کو سزا نہیں دے سکے۔ ہزاروں مقدمات بنائے گئے اور اب بھی کئی سو مقدمات درج ہیں لیکن ان مقدمات میں پہلے والے بھی بری ہوئے اور آج والے بھی بری ہی ہوں گے کیوں کہ جب تک جمہوری فیصلوں میں ملکی ترجیحات مقدم نہیں ہوں گی، معاشی صورتحال میں بہتری ممکن نہیں ہوگی۔ ہمارے ہاں جب تک رائے دہی میں شفافیت نہیں ہوگی اس وقت تک منتخب نمائندوں کے فیصلوں میں طاقت نہیں ہوگی۔ یہ سن 2003 کی بات ہے جب امریکہ عراق پر حملہ کا پلان بنا رہا تھا۔ جارج بش انتظامیہ نے مشورہ دیا کہ اگرچہ وہ جب چاہیں عراق پر حملہ کر سکتے ہیں لیکن بہتر ہوگا کسی مسلم ملک کی سرحدوں سے عراق میں داخل ہوا جائے لیکن یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ کون سے اسلامی ملک کو اس کام کیلئے استعمال کیا جائے۔ ایران، شام اور سعودی عرب تو اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کے بعد ان کے پاس ایک ہی آپشن باقی تھا۔ ان سب کی نظریں ترکی پر جم گئیں۔ ترکی پر یورپی اقوام کا بہت اثر تھا بلکہ ترکی کے امریکہ کے ساتھ کئی فوجی معاہدے ہونے کی وجہ سے یہ کام تھوڑا آسان بھی تھا۔ جارج بش نے فیصلہ کیا کہ ترکی انتظامیہ سے بات کی جائے کہ وہ امریکی فوجوں کو اپنی سرحد کے اندر سے عراق جانے کی اجازت دے۔ اس کا مقصد دنیا کو باور کرانا تھا کہ امریکہ کے ساتھ مسلمان ممالک بھی اس حملہ میں شامل ہیں۔ اس کام کیلئے امریکہ نے ترکی کو 30بلین ڈالر کی پیشکش کی۔ ترکی کے طاقتور فوجی جرنیلوں سے رابطہ کیا گیا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر شاید جنرل حضرات ان کی بات مان جائیں گے۔ لیکن ان جنرلوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایک پارلیمنٹ ہے اور ہم عوام کے منتخب نمائندوں سے پوچھ کر ہی کچھ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ پیکیج پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا، وہاں کئی دن تک بحث ہوتی رہی، جب رائے شماری ہوئی تو ترکوں کی پارلیمنٹ نے 30ارب ڈالر کی پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ "ہم ہمسائے نہیں بدل سکتے۔ امریکیوں نے آخر ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے لیکن ہماری آنے والی نسلوں نے انہی عراقیوں کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم اپنی نسلوں کیلئے یہ داغ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے کہ ان کے بزرگوں نے اپنے ہمسایوں کو 30ارب ڈالر میں فروخت کر دیا تھا۔ امریکی جنرل چپ کرکے انقرہ سے نکل گئے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ وہ دنیا بھر میں ہر کسی سے لڑ کر اسے تباہ کر سکتے ہیں لیکن وہ کسی بھی پارلیمنٹ کی منظورکردہ قرارداد کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے اقتباس "شاہ جمال کا مجاور "۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button