ColumnImtiaz Aasi

ملک اکرم فری ایجنٹ نہیں

امتیاز عاصی
انسانی زندگی میں مشکلات کا پیش آنا کوئی نئی بات نہیں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں کئی بار مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود وہ توبہ تائب نہیں ہوتے۔ حق تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے توبہ کا دروازہ ہمہ وقت کھلا رکھا ہے ۔ جب کوئی صدق دل سے اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں فرمان الٰہی ہے اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو نہیں کر سکتے۔ زندگی سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں ہو سکتی ۔ حق تعالیٰ کی نعمتوں کا غلط استعمال سے کیا جائے تو ایک نہ ایک روز رب کائنات کی گرفت ضرور ہوتی ہے۔ مشکلات کے گرداب میں پھنسے انسان کی کوئی نہ کوئی نیکی اس کی مشکل کو آسان کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ اللہ کے نبی حضرت یوسف ٌ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا جیل خانہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے قید و بند کی صعوبتیں انسان کی آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جاتیں ہیں۔ جب کوئی انسان قید خانے میں منعم حقیقی سے لو لگا لیتا ہے تو یہ حقیقت ہے اللہ تبارک تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں انسان کے خواب خیال میں نہیں ہوتا اس کی رہائی عمل میں آجاتی ہے۔ ایک عشرہ سے زیادہ سزائے موت کی کوٹھڑی میں رہنے کے دوران مجھے یاد ہے نماز ظہر کی دعا میں رب تعالیٰ کے حضور دعا میں میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ چند گھنٹوں بعد میری موت کی سزا ختم ہونے کی خوش خبر آگئی۔ میرے کالم کا موضوع سنٹرل جیل راولپنڈی کے سابق ڈپٹی سپرنینڈنٹ محمد اکرم ملک ہے ۔ ملک محمد اکرم کا تعلق لودھراں سے ہے ایم اے انگریز ی کے بعد اس نے سرکاری اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کی جس کے کچھ عرصہ بعد وہ محکمہ جیل خانہ جات میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کی پوسٹ کے لئے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 2004ء سے اکرم ملک سے میری شناسائی ہے اسے جب سزائے موت کا انچارج افسر لگایا گیا ان دنوں میں سزائے موت میں بی کلاس کا قیدی تھا۔ چند سال بعد اسے اپنے گریڈ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بنا کر ہائی سکیورٹی جیل اڈیالہ میں تعینات کر دیا گیا۔ بطور منتظم ملک اکرم ایک اچھا افسر ہے قیدی اور حوالاتی اس سے خائف رہتے تھے۔ سینٹرل جیل راولپنڈی سے تبدیل ہونے کے بعد وہ سینٹرل جیل میانوالی اور ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں تعینات رہا۔ ملک اکرم کی ملازمت کا زیادہ تر عرصہ راولپنڈی کی سنٹرل جیل میں گزرا ہے۔ ملک محمد اکرم سے میری آخری ملاقات دو سال قبل ہوئی جب سنٹرل جیل میں مینٹل کے عالمی دن کے موقع پر مجھے تقریب میں مدعو کیا گیا۔ ڈی آئی جی ملک شوکت فیروز نے مجھے شرکت کی دعوت دی۔ اپنی رہائی کے کئی سال بعد مجھے جیل کے اندرونی حصے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت کے آئی جی مرزا شاہد سلیم بیگ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ تقریب کے اختتام پر میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ملک اکرم کے دفتر چلا گیا جہاں انہوں نے چائے پانی سے میری تواضع کی بلکہ ایک دوست قیدی کی گنتی تبدیل کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے اسی وقت منشی سے حوالاتی کی بیرک بدلنے کا کہہ دیا۔ ملک صاحب سے فون پر علیک سلیک ہوتی رہتی تھی۔ ان کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے ان کی اہلیہ اور بچے حافظ قرآن ہیں۔ اگلے روز اخبارات میں خبر نظر سے گزری ملک اکرم کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ اللہ کے بندوں ملک اکرم کہاں ہے کسی کو اس کی موجودگی کا علم ہے؟ شوکاز نوٹس اس کے گھر کی دیواروں کو وصول کرائوں گے۔ ایک پرانی انکوائری نکل آئی ہے پہلے التواء میں رکھ لیتے ہیں جب کوئی مشکل میں ہو تو پرانی انکوائریاں یاد آجاتی ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات کمال کا محکمہ ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں انسان کی کوئی نیکی کسی وقت کام آسکتی ہے۔ جب شوکاز نوٹس کسی کو ملے گا نہیں تو جواب کیسا؟ اعلیٰ عدلیہ
کے فیصلے موجود ہیں اگر کوئی پابند سلاسل ہے یا موجود نہیں ہے وہ فری ایجنٹ نہیں ہے لہذا ملک اکرم اس وقت فری ایجنٹ نہیں شائد اس کی کوئی نیکی کام آگئی ہے ۔محکمہ جیل خان جات اسے ملازمت سے برطرف کر بھی دے تو کیا جب عدالت میں کیس چلے گا چند روز میں وہ اپنی ملازمت پر بحال ہو جائے گا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے اس کے محکمہ کے افسر اس کی فیملی سے سرکاری رہائش چند روز میں خالی کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے والا سرکاری ملازم چھ ماہ تک سرکاری رہائش رکھ سکتا ہے۔ ملک اکرم ابھی ملازمت میں اسے ملازمت سے معطل ہونے چند روز ہوئے ہیں جب کہ دوسری طرف محکمہ جیل خانہ جات کے بعض افسران ملازمت سے ریٹائر ہونے کے باوجود کئی سال سے سرکاری رہائش رکھے ہوئے ہیں۔ برا وقت کسی پر آسکتا ہے۔ اچھے دنوں کے سب دوست ہوتے ہیں مشکل وقت میں اپنے اور پرائے کا پتہ چلتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی یہ روش بہت پرانی ہے کوئی سیٹ پر ہوتا ہے اس کے اردگرد خوشامدیوں کا جم گھٹا رہتا ہے جیسے ہی کسی پر مشکل وقت آن پڑے سب تیر بتر ہوجاتے ہیں اسی کا نام دنیا ہے۔ عجیب تماشا ہے سرکاری ملازم کا اتہ پتہ نہیں محکمہ شوکاز نوٹس دے رہا ہے۔ فرض کریں شوکاز نوٹس اکرم ملک کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر چسپاں کر دیا جائے قانونی پہلوئوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو محکمہ جیل خانہ جات کا کیس بہت کمزور ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے آئی جی جیل خانہ جات پر کہیں نہ کہیں سے دبائو ضرور ہوگا تاہم وقت ایک سا نہیں رہتا۔ محکمہ جیل خانہ جات کو قانونی پہلوئوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہم انکوائری رپورٹ سے لاعلم ہیں جیل افسران لاک آپ کے بعد گھروں کو لوٹتے ہیں اگر کوئی وقوعہ ہو جائے تو کیا اس کی ذمہ داری سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پر ڈالی جا سکتی ہے؟ تعجب ہے ایگزیکٹو کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے جیل سپرنٹنڈنٹ کو بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی تو دنیا کا دستور ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button