ColumnHabib Ullah Qamar

سید علی گیلانی کی تحریک آزادی کشمیر کیلئے لازوال خدمات

حبیب اللہ قمر
تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما اور بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی کا ایک اور یوم شہادت گزر گیا۔ اس موقع پر مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں سید علی گیلانی کی خدمات پر انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور ان کے لیے بلندی درجات کی دعائیں کی گئیں۔ بزرگ کشمیری لیڈر ایک باہمت، نڈر اور مخلص رہنما تھے جن کی ساری زندگی آزادی کشمیر کے لیے عظیم جدوجہد سے عبارت تھی۔ ان کی عمر 92برس تھی۔ انہوںنے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ غاصب بھارت کے خلاف جدوجہد کے نتیجہ میں جیلوں اور نظربندیوں میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے گزار دی، وفات سے قبل بھی وہ تقریبا بارہ سال سے غیر قانونی طور پر گھر میں نظربند تھے۔ بھارتی فوج کی طرف سے متعدد بار ان کا گھر تباہ کیا گیا اور جسمانی و ذہنی طور پر سخت ٹارچر کیا جاتا رہا مگر ان کے عزم و استقلال اور جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ بھارت سرکار اور ہندوستانی فوج کے خلاف کشمیریوں کی سب سے مضبوط آواز سمجھے جاتے تھے۔ جس طرح کشمیری قوم کے بچے، بوڑھے اور جوان انہیں اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے تھے اسی طرح پوری دنیا میں انہیں کشمیری قوم کے سب سے بڑے محسن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ کشمیریوں پر مشکل وقت کے دوران وہ ہمیشہ ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے ہیں۔ ان کا یہی وہ کردار تھا جس سے ہندوستانی ایجنسیاں اور فوج ہمیشہ خائف رہیں اور ان کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔سید علی گیلانی نے اپنی ساری زندگی غاصب بھارت کے خلاف جدوجہد کرتے گزاری اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے ایسی لازوال قربانیاں پیش کی ہیں کہ جنہیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ بزرگ کشمیری لیڈر اس وقت دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کا یہ نعرہ کہ اسلام کے رشتے سے ’’ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ ہر طرف گونجتا دکھائی دیتا ہے اور دنیا بھر میں انہیں ان کی تحریک آزادی کے حوالے سے خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ہے۔ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے زبردست حامی تھے۔ وہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت ’’ تحریک حریت جموں کشمیر‘‘ بھی بنا رکھی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم ’’ رابطہ عالم اسلامی‘‘ کے رکن تھے۔ حریت رہنما یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما تھے۔ ان سے قبل سید ابو الاعلی مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے ’’ رابطہ عالم اسلامی‘‘ فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ وہ اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کر چکے ہیں جس کا نام ’’ روداد قفس‘‘ ہے۔ ان کی اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزرا ہے۔ وہ لاہورکے اورینٹل کالج کے فارغ التحصیل تھے۔ سید علی گیلانی اگر چاہتے تو مقبوضہ کشمیر میں آسانی سے اقتدار حاصل کر سکتے تھے لیکن بھارتی ایجنسیوں اور حکومتی ذمہ داران نے کئی مرتبہ اس امر کا اعتراف کیا کہ وہ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کو نہ صرف یہ کہ کبھی خرید نہیں سکے بلکہ انہیں کبھی ان سے ایسی بات کرنے کی جرات بھی نہیں ہوئی کیوں کہ ان کے نظریات اور دوٹوک موقف ساری دنیا کے سامنے عیاں تھا۔ سید علی گیلانی نے مشرف کے چار نکاتی فارمولا کی کھل کر مخالفت کی۔ اسی طرح وہ چناب فارمولا اور تقسیم کشمیر جیسے کسی بھی منصوبہ کے سخت خلاف تھے ۔
بزرگ کشمیری لیڈر کو اللہ رب العزت نے غیر معمولی صلاحیتوں، بے پناہ صبر اور اعلیٰ درجے کی تنظیمی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔ بانوے سال کی عمر میں جب انسان کا ذہن بھی صحیح طور پر کام نہیں کر تا اس بڑھاپے میں بھی انہوںنے جوانوں سے زیادہ تحریک آزادی کے لیے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ وہ طویل عرصہ سے بیمار تھے لیکن اس کے باوجود عزم و ہمت کا کوہ گراں تھے جسے بھارت کبھی بھی جھکانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ 29ستمبر 1929ء کو پیدا ہونے والے سید علی گیلانی تحریک حریت جموں کشمیر اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئر مین بھی رہے۔ وہ 3مرتبہ جموں اور کشمیر کے حلقے سے کشمیر اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ سید علی گیلانی طویل عرصہ سے مختلف امراض کا شکار تھے۔ دل کے مرض کے سبب تقریبا ستائیس برس قبل ان کے سینے میں پیس میکر لگایا گیا تھا جس کے بعد انہیں گردوں کی شدید تکلیف ہو گئی اور علاج معالجہ کے بعد بھی طبیعت بہتر نہ ہوئی تو 2003ء میں ممبئی کے ایک ہسپتال میں آپریشن کر کے ان کا بایاں گردہ نکال دیا گیا۔ اسی طرح دو تین برس گزرنے کے بعد دوسرے گردے میں بھی تکلیف ہوئی تو ڈاکٹروں کی طرف سے دائیں گردے کا بھی تقریبا نصف حصہ کاٹ دیا گیا۔ ابھی گردوں کی بیماری کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ 2007ء میں ان کے سینے میں دوسرا پیس میکر نصب کرنا پڑا۔ اس کے بعد دہلی کے ہسپتال میں ان کی آنکھوں کا آپریشن کیا گیا۔ وفات سے قبل تقریبا بارہ برسوں کے دوران جس طرح انہیں مسلسل ذہنی اذیتوں سے دوچار رکھا گیا اس سے وہ مزید کئی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے اور سخت بیماری کی حالت میں زندگی کے ایام گزار رہے تھے۔ اپنی رہائش گاہ پر نظربندی کے دوران انہیں نماز جمعہ اور عیدین کی نمازوں تک کی ادائیگی کی اجازت نہیں تھی۔ سید علی گیلانی کو بعض اوقات طبیعت میں اس قدر نقاہت ہوتی ہے کہ وہ زیادہ بات چیت بھی نہیں کر سکتے مگر اس کے باوجود بھارتی حکومت اور فوج ان کی ذات سے اس قدر خوفزدہ رہتے کہ انہیں رہا کرنے کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ بزرگ کشمیری لیڈر اور دیگر حریت قائدین کے مسلسل جیلوں میں قید ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستانی ایجنسیاں مسلسل سازشوں کے ذریعہ تحریک آزادی کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ سابق حکومت کی جانب سے جب سید علی گیلانی کو پاکستان کا سب سے بڑا نشان ’’ نشان پاکستان‘‘ دینے کا اعلان کیا اور پھر 14اگست یوم آزادی کے موقع پر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے ایوان صدر میں ایک پروقار تقریب کے دوران حریت رہنماں کو ان کا یہ اعزاز دیا گیا تو ہندوستانی میڈیا نے زبردست پراپیگنڈا شروع کر دیا اور مودی سرکار کے کارندے بھی کئی دن تک زہر اگلتے رہے۔ سید علی گیلانی کو نشان پاکستان دئیے جانے پر ایک طرف کشمیری عوام نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا تو دوسری جانب بھارتی حکومت اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کا یہ اقدام برداشت نہیں ہوا اور اس اعزاز دئیے جانے کے موقع پر بھی وہ تحریک آزادی کشمیر کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آئے۔ بزرگ کشمیری لیڈر ہمیشہ بھارتی سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ بھارتی ایجنسیوں نے مقبوضہ کشمیر میں داعش جیسی تکفیری تنظیموں اور گروہوں کی آبیاری کی کوشش کی لیکن سید علی گیلانی نے کشمیری قوم کی فکری رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جدوجہد صرف غاصب بھارت کے خلاف ہے اور کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو نشانہ بنانا کسی طور درست نہیں ہے۔ ان کی طرف سے بروقت رہنمائی سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں داعش جیسی تنظیموں کو پروان چڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ حقیقت ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بزرگ کشمیری قائد کی قربانیوں کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ جموں کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دلانے کے لیے ان کا عزم غیر متزلزل تھا۔ سید علی گیلانی اور دیگر کشمیریوں کی قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جائیں گی۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب غاصب بھارت کو کشمیر سے اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کر کے نکلنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button