سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، پاک افغان سرحد پر دراندازی کی مذموم کوشش ناکام

پاکستان میں پچھلے دو ڈھائی سال سے دہشت گردی کے واقعات پھر سے رونما ہورہے ہیں، سیکیورٹی چیک پوسٹوں، قافلوں اور اہم تنصیبات مسلسل دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، متعدد جوان و افسران جام شہادت نوش کر چکے، پاکستان کی سکیورٹی فورسز بھی دہشت گردوں اور خوارجیوں کے مکمل قلع قمع کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں آپریشن کیے جارہے ہیں اور ان میں بڑی کامیابیاں سمیٹی جارہی ہیں، متعدد علاقوں کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سی پاک کیا جا چکا ہے، ان کے ٹھکانے تباہ کیے جاچکے ہیں، گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، یہ کارروائیاں دہشت گردوں کا صفایا کرنے تک جاری رہیں گی اور ان شاء اللہ ایسا جلد ہوگا۔ اس میں شبہ نہیں کہ افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا اور وہاں طالبان عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت نے سر اُٹھایا ہے، پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کا مسلسل استعمال دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے مسلسل اپنا احتجاج ریکارڈ کراتا اور افغان حکومت پر زور دیتا چلا آرہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے، لیکن پاکستان کے اس مطالبے پر پڑوسی ملک کی عبوری حکومت سنجیدگی سے توجہ دینے کی زحمت بھی گوارا کرتی دِکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیا، اس کے ہر مشکل وقت میں کام آیا، سوویت یونین جب افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا یہ پاکستان اور اس کے عوام ہی تھے، جنہوں نے لاکھوں افغان شہریوں کے لیے اپنے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے تھے۔ 44سال تک ان کی میزبانی کی۔ ان کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ ان کو ہر شعبے میں بھرپور مواقع فراہم کیے۔ انہوں نے یہاں کاروبار اور روزگار کیے اور جائیدادیں بنائیں۔ پاکستان اور اُس کے عوام اپنی بساط سے بڑھ کر افغانستان اور اُس کے عوام کے کام آئے۔ مہمانوں کو چاہیے تھا کہ ازخود اپنے وطن لوٹ جاتے، تاکہ میزبان کے لیے مسائل پیدا نہیں ہوتے، لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ پاکستان کو ہی اپنا مستقل مسکن بناکر مزید وطن عزیز کی مشکلات بڑھانے پر مُصر رہے۔ وسائل کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور بھی سنگین مسائل سامنے آئے۔ گزشتہ سال نگراں دور میں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے اُنہیں یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ اس کے بعد سے تاحال لاکھوں افغان اور دیگر ملکوں کے شہریوں کو اُن کے وطن باعزت طریقے سے واپس بھیجا جا چکا ہے۔ افغان سرحد سے مسلسل پاکستان میں دراندازی کی مذموم کوششیں سامنے آرہی ہیں، گزشتہ روز بھی ایسی مذموم کوشش کو ہمارے سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوانوں نے ناکام بنادیا۔ سیکیورٹی فورسز نے ضلع باجوڑ میں پاک افغانستان سرحد پر دراندازی کرنے کی کوشش کرنے والے خوارج کے ایک گروپ کی نقل و حرکت کو ناکام بناتے ہوئے 5خوارج کو ہلاک اور 4کو زخمی کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 18اور 19اگست کی درمیانی رات ضلع باجوڑ کی حدود میں پاکستان افغانستان سرحد پر دراندازی کرنے کی کوشش کرنے والے خوارج کے ایک گروپ کی نقل و حرکت کو سیکیورٹی فورسز نے موثر طریقے سے ناکام بنادیا۔ اس دوران فتنہ الخوارج کے 5خوارج ( دہشت گرد) ہلاک جبکہ 4زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران، مادر وطن کے تین بہادر سپوت نائیک عنایت خان ( عمر: 36سال، ضلع خیبر کے رہائشی)، لانس نائیک عمر حیات ( عمر: 35سال، ضلع مانسہرہ کے رہائشی) اور سپاہی وقار خان ( عمر:25سال، ضلع پشاور کے رہائشی) بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ پاکستان نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرحد پر موثر انتظامات کو یقینی بنائے، عبوری افغان حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے اور افغان سرزمین کو خوارج کے ذریعے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم ہیں اور ہمارے بہادر فوجیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ دوسری جانب سی ٹی ڈی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی فائرنگ کے تبادلے میں 3دہشت گرد ہلاک کر دئیے۔ واقعہ ڈی آئی خان کے علاقے تھانہ درابن کی حدود میں پیش آیا، سی ٹی ڈی حکام کے مطابق دہشت گردوں نے سگو پل پر چیک پوسٹ قائم کر رکھی تھی، اطلاع ملتے ہی سی ٹی ڈی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موقع پر پہنچے۔ حکام کے مطابق کراس فائرنگ میں 3دہشت گرد مارے گئے، ہلاک دہشت گردوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ ادھر صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم میاں شہباز شریف نے باجوڑ میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے دفاع وطن میں جان کا نذرانہ پیش کرنے پر شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ دراندازی کی مذموم کوشش ناکام بنانے پر سیکیورٹی فورسز کی جتنی توصیف کی جائے، کم ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے 3جوانوں کی شہادت پر پوری قوم دُکھ کی کیفیت میں ہے۔ قوم ان کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ محب وطن عوام کے لیے شہدا کے اہل خانہ بھی ہر لحاظ سے قابل عزت و احترام ہیں۔ افغانستان کی حکومت کو ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سرحد دہشت گردی کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنے دینی چاہیے۔ پاکستان کے احسانات کی تو لاج رکھے۔ احسانات کے بدلے ایسے تو نہیں چُکائے جاتے۔ دہشت گرد، ملک دشمن خوارج کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ پاکستان کو بہادر سیکیورٹی فورسز میسر ہیں جو ہر بار خوارجیوں کو منہ توڑ جواب دیں گی اور اُن کی ہر مذموم سازش کو ناکام بنائیں گی۔ پاکستان تاقیامت قائم رہے گا اور دشمنوں کی ہرسازش ہمیشہ ناکام ہوگی۔
بڑھتی آبادی اور وسائل کی کمی
ملک عزیز میں آبادی انتہائی سُرعت سے بڑھ رہی اور وسائل میں اسی تناسب سے
ہولناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے۔ ماہرین تیزی سے بڑھتی آبادی کے خطرات سے کافی سال پہلے سے آگاہ کرتے اور اس حوالے سے پیشگی اقدامات کرنے پر زور دیتے چلے آرہے ہیں، لیکن افسوس اس ضمن میں کچھ نہیں کیا جاسکا ہے۔ پاکستان 25کروڑ آبادی کا حامل ملک ہے اور وسائل اس حساب سے انتہائی حد تک ناکافی ہیں۔ ملک میں بجلی اور گیس کی قلت کی صورت حال رہتی ہے۔ اسی طرح عرصہ دراز سے آبی ذخائر تعمیر نہ کرنے کے باعث پانی کی قلت کا بھی قوم کو سامنا رہتا ہے۔ خصوصاً گرمیوں میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہوجاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے پانی کی شدید قلت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اگر اب بھی اس حوالے سے اقدامات یقینی نہ بنائے گئے تو آگے چل کر حالات مزید سنگین شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال کے باعث بھی اس کی سطح میں ہولناک کمی واقع ہورہی ہے۔ اگر مستقبل کی ضروریات کے لیے پہلے سے ہی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو آنے والا وقت سنگین ثابت ہوگا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے کھل کر اظہار کرنے کے ساتھ آنے والے خطرات سے باخبر کیا گیا ہے۔ بڑھتی آبادی، درجۂ حرارت، کم واٹر اسٹوریج کے باعث پاکستان میں 2040تک پانی کی سطح شدید کم ہونے کا خدشہ ہے، ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور شجرکاری کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بات ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے جاری کردہ نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جس کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث لوگوں کے رہن سہن بھی متاثر ہورہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کی شرح 3.65فیصد تک پہنچ گئی ہے، شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کی شرح دیہی علاقوں کی نسبت دُگنی جبکہ 2050تک پاکستان کی آبادی 40کروڑ تک تجاوز کر جائے گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث شہروں میں بنیادی سہولت کا فقدان بڑھے گا جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث لوگوں کا رہن سہن غیر معیاری ہورہا ہے، شہروں میں منصوبہ بندی کے بغیر غیر قانونی اور بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی ہورہی ہے، غیر قانونی اور بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی سے شہروں میں ماحول اور نظام میں خرابی ہورہی جب کہ زرعی زمینوں پر بڑھتی ہوئی انکروچمنٹ کے باعث مستقبل میں غذائی قلت کا خدشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث نئے شہر اور مستقل پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ چشم کُشا ہے۔ اس میں سنگین مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اگر ان کا فوری طور پر صائب حل نکالنے کی کوشش نہ کی گئی تو آگے چل کر حالات انتہائی گمبھیر شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ مسائل ہولناک حد تک بڑھ سکتے ہیں۔ ارباب اختیار کو اس رپورٹ کے تناظر میں پیشگی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے آبی ذخائر زیادہ سے زیادہ تعداد میں تعمیر کیے جائیں۔ آبادی پر قابو پانے کے لیے موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔ وسائل میں اضافے کے لیے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ بڑھتی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ابھی سے سر جوڑ کر بیٹھا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔





