Editorial

شعبہ توانائی میں اصلاحات کیلئے راست اقدامات ناگزیر

پاکستان ماضی میں توانائی کے بدترین بحران سے دوچار رہا ہے۔ عالم یہ تھا کہ بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ تھی۔ بجلی چوری کے سلسلے ہولناک حد تک دراز تھے۔ ملک کے طول و عرض میں انتہائی بڑے پیمانے پر بجلی چوری کی جاتی تھی۔ بجلی چوری کا تمام تر بوجھ باقاعدگی سے بجلی بل ادا کرنے والے صارفین پر پڑتا تھا اور وہ اس پر شکوہ کناں بھی رہتے تھے۔ 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی، جس نے جلد ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کے دعوے کیے، اس حوالے سے اس کے نمائندے بارہا لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کے بیانات دیتے دِکھائی دئیے۔ اُس دور میں ملک وقوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کچھ بڑے اقدامات کیے گئے۔ بجلی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے یہ دعوے نواز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اُس وقت کی حکومت میں سچ ثابت کر دِکھائے۔ بجلی بحران پر قابو پالیا گیا۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ معیشت کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا۔ اس کے ساتھ اسی دور میں دہشت گردی کے عفریت کو مکمل طور پر قابو کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی گئی تھی۔ 2018ء کے وسط میں عام انتخابات ہوئے، اس کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے دور میں کئی طرح کی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ اُن میں بجلی بحران کا پھر سے جنم لینا بھی تھا۔ عوام لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر جہاں خوشی سے نہال تھے، وہ خوشی زیادہ دیر تک نہ ٹک سکی اور وہ پھر سے بجلی کی آنکھ مچولی کی صورت سامنے آئی۔ بجلی کی قیمت میں بھی ہوش رُبا اضافے کے سلسلے رہے۔ صرف بجلی پر ہی کیا موقوف اُس دور میں تو ہر شے کے دام تین، چار گنا بڑھا دئیے گئے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پاکستانی روپے کو جان بوجھ کر پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا گیا، ڈالر اُسے بُری طرح مات کرتا رہا۔ اسی تناسب سے گرانی بھی تین چار گنا بڑھتی رہی۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی گئیں۔ وطن عزیز میں اس وقت بھی بجلی چوری کے سلسلے ہیں، اس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے کرپٹ عناصر بھی ملوث پائے جاتے ہیں، جو رشوت کے عوض بجلی چوری کرانے میں سہولت کاری کرتے ہیں۔ پچھلے ایک سال سے ملک کے طول و عرض میں بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے، جن میں بڑی کامیابیاں ہاتھ آئی ہیں۔ کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ بجلی کمپنیوں کے کرپٹ عناصر بھی پکڑے گئے ہیں اور اُن کو ناصرف اداروں سے بے دخل کیا گیا، بلکہ اُن کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ اس کریک ڈائون کو بجلی چوری کے مکمل خاتمے تک مزید تیزی سے جاری رکھنے کی ضرورت خاصی شدّت سے محفوظ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ روز وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں میں کرپٹ عناصر سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وزارت توانائی، پاور ڈویژن کے امور پر جائزہ اجلاس وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بجلی چوری کی روک تھام، لائن لاسز میں کمی اور بجلی ترسیل کے نظام کو بہتر کرنا، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں بجلی کی ترسیل کی پانچ کمپنیوں میں نئے بورڈ چیئرمین اور ارکان کی تعیناتی ایک شفاف عمل کے ذریعے کی گئی ہے، امید ہے ان تعیناتیوں سے ڈسکوز کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر پاور اور وفاقی سیکریٹری پاور کو بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی، انسدادِ بجلی اور دیگر معاملات پر چاروں صوبوں کا دورہ کرنے اور صوبائی حکومتوں سے رابطہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ انسداد بجلی چوری کے لیے ہول آف دی گورنمنٹ اپروچ اپنائی جائے۔ وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں کو انسدادِ بجلی چوری کے حوالے سے پولیس فورس اور تحصیل داروں کی تعداد ڈسکوز کی ضرورت کے مطابق پوری کرنے کی ہدایت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں موجود کرپٹ عناصر سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ انہوں نے ڈسکوز کی عوامی شکایات کے ازالے کے حوالے سے کچہریوں کے نظام کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے بلوچستان کی زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے حوالے سے بنائی گئی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس فی الفور طلب کرنے کی ہدایت بھی کی۔ اس میں شبہ نہیں کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات ازحد مفید ثابت ہوں گی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اس حوالے سے خاصی سنجیدگی دِکھا رہے اور اقدامات بروئے کار لارہے ہیں۔ بجلی چوری کا مکمل خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے، اسی طرح لائن لاسز کے مسئلے کا بھی مستقل حل نکالنا چاہیے۔ خرابیوں کو دُور کرکے ہی ناصرف صورت حال بہتر بلکہ بجلی کی قیمت میں بھی معقول حد تک کمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ ضروری ہے کہ بجلی چوروں کے مکمل قلع قمع کا عزم مصمم کیا جائے اور اس حوالے سے ملک بھر میں سخت اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ نادہندگان کے خلاف بھی کارروائیوں میں تیزی لائی جائے۔ بجلی نظام میں پائی جانے والی تمام تر خرابیوں کی نشان دہی کی جائے اور ان کو دُور کیا جائے۔ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کو بروئے کار لایا جائے۔ کیپسٹی چارجز کے مسئلے کا صائب حل نکالا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
منکی پاکس کے 11کیس رپورٹ
ہمارے ملک میں صحت کے حوالے سے صورت حال کسی طور تسلی بخش نہیں کہی جاسکتی، یہاں ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی وبا پھوٹتی اور کئی زندگیوں کے چراغ گل کرنے کا
باعث بن جاتی ہے۔ یہاں امراض کے پھیلائو کے حوالے سے حالات خاصے موافق دِکھائی دیتے ہیں۔ ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے۔ پانچ سال قبل کرونا وائرس نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ لاکھوں لوگ اس کی بھینٹ چڑھے تھے۔ فاصلوں میں بقا ٹھہری تھی اور اس وائرس میں مبتلا لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا جاتا تھا، تاکہ دوسرے محفوظ رہ سکیں۔ اب پھر سے ایک اور عالمی وبا کے خطرات دُنیا پر منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ دُنیا کے مختلف ممالک سے اس کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں عالمی ادارہ صحت نے منکی پاکس وائرس کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا۔ موجودہ حکومت عوام کی صحت کی بہتری کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے اور اس حوالے سے ذرا بھی غفلت نہیں برتتی۔ دو روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے بھی منکی پاکس کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کرنے کے احکامات صادر کیے۔ اُنہوں نے ایئرپورٹس، بندرگاہوں اور سرحدوں پر اس کی اسکریننگ کے نظام کو موثر بنانے کی بھی ہدایت کی تھی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ملک میں منکی وائرس کے 11کیس سامنے آچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں منکی پاکس کے 11کیس رپورٹ ہوچکے، پہلا کیس پشاور میں رپورٹ ہوا، مردان میں بھی ایک کیس سامنے آیا۔ ڈاکٹر کے مطابق منگاہ کا 34سالہ رہائشی ٹانگ ٹوٹ جانے پر 5 دن قبل سعودی عرب سے آیا تھا، مریض کا ٹیسٹ کیا گیا تو منکی پاکس مثبت آگیا، مریض کو گھر پر آئیسولیٹ کردیا گیا۔ منکی پاکس کے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 4، 4جبکہ بلوچستان اور سندھ میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ پشاور میں پولیس سروسز اسپتال میں منکی پاکس کے مشتبہ کیسز کے لیے آئیسولیشن کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق منکی پاکس کی علامات 4سے 15روز میں ظاہر ہوتی ہیں، بخار، جسم میں درد، غدود کا بڑھ جانا ایم پاکس کی علامات ہیں، اگر کسی میں منکی پاکس کی علامات ظاہر ہوں تو اسے آئیسولیٹ ہونا چاہیے۔ منکی پاکس کے متاثرین کے لیے اسپتال مختص کردیے گئے، پنجاب بھر میں 6سرکاری اسپتالوں میں منکی پاکس کے مریضوں کے لیے وارڈز قائم کیے گئے ہیں جب کہ مشتبہ مریضوں کے لیے آئیسولیشن وارڈ بنانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ محکمہ صحت سندھ نے بھی اسپتالوں کو ایڈوائزری جاری کردی جب کہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں خصوصی وارڈ قائم کردئیے گئے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ وفاق اور صوبوں کی حکومتوں کو اس کی روک تھام کے لیے مزید موثر اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ہر طرح سے احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ اس وائرس کی جو علامات بتائی گئی ہیں، اُن میں سے جو بھی پائی جائیں، فوری معالج سے رجوع کریں۔ آئیسولیٹ ہوجائیں کہ دوسرے محفوظ رہ سکیں۔ احتیاط کا دامن ہر صورت تھامے رکھا جائے۔ اس وبا کا راستہ روکنے کے لیے تمام شہریوں کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button