Editorial

بھارت کی ایک اور آبی جارحیت

گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت نے اپنے قیام کے 77برس مکمل کیے۔ ترقی اور خوش حالی کی سیڑھیاں چڑھتا پاکستان بھارت کو آگ میں جھلساتا رہتا ہے۔ اسے ابتدا سے ہی پاکستان کا وجود ہضم نہیں ہوا ہے۔ اُس نے کبھی دل سے اسے تسلیم نہیں کیا۔ وہ وطن عزیز کے خلاف تقسیمِ ہند کے بعد سے سازشوں میں مصروفِ عمل ہے۔ جنگیں مسلط کیں۔ ہر بار منہ کی کھائی، ذلیل اور رُسوا، ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب ملا اور بھاگنے پر مجبور ہوا۔ جنگوں کے حربے میں ناکامی کے بعد وطن عزیز میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کے منصوبے بنائے۔ کئی دہشت گرد حملے کروائے۔ اس کے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس پکڑے گئے۔ بھارتی جاسوسوں نے اپنے خبثِ باطن کا اقرار کیا۔ بھارت کا مکروہ چہرہ دُنیا کے سامنے بے نقاب ہوا۔ اس کے بعد اس نے ڈس انفولیب کے ذریعے پاکستان سے متعلق جھوٹے پروپیگنڈے گھڑے۔ یہ نیٹ ورک بھی پکڑا گیا اور دُنیا بھر میں بھارت کی خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے پاکستان اور ملکی سلامتی کے ضامن ادارے کے خلاف مذموم مہمات چلوا رہا ہے۔ ڈیجیٹل دہشت گردی کے واقعات ہوش رُبا حد تک بڑھ رہے ہیں۔ یہ ہتھکنڈا بھی ناکامی سے دوچار ہوگا۔ برصغیر پاک و ہند میں مون سون کا سیزن چل رہا ہے، اس موسم میں جب بھی بارشیں ہوتی ہیں اور تیز بارش ہوجائے اور اس سے بھارت میں تباہ کاری پھیلے تو یہ اس کے بداثرات سے پاکستان کو بھی دوچار کرنے کے لیے آبی دہشت گردی کا حربہ اختیار کرتے ہوئے اپنا پانی پاکستان کی جانب چھوڑ دیتا ہے، جس سے وطن عزیز میں سیلابی صورت حال جنم لیتی اور بڑے نقصانات دیکھنے میں آتے ہیں۔ بڑی تعداد میں خلق خدا اس سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ سیلابوں سے ویسے ہی پاکستان بے پناہ نقصانات اُٹھا چکا ہے۔ 2022کا سیلاب انتہائی تباہ کُن تھا، جس سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے، سندھ میں سب سے زیادہ تباہی آئی، لاکھوں شہریوں کو بے گھری کا دُکھ جھیلنا پڑا تھا۔ اس کے نقصانات سے پاکستان آج تک نہیں سنبھل سکا ہے۔ پاکستان بھارتی آبی جارحیت کے خلاف بارہا اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکا ہے، لیکن بھارت اپنی اس مذموم کوشش سے باز نہیں آتا۔ گزشتہ روز بھی اُس نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نے بغیر اطلاع کے دریائے راوی اور چناب میں پانی چھوڑ دیا، جس کے باعث پنجاب کے ہزاروں دیہات اور لاکھوں ایکڑ رقبہ زیر آب آگیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بھارت نے ایک بار پھر آبی دہشت گردی کرتے ہوئے بغیر اطلاع کے دریائے راوی اور چناب میں پانی چھوڑا، جس کے باعث ہزاروں دیہات اور لاکھوں ایکڑ رقبہ زیر آب آگیا۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے چناب پر قادرآباد بیراج پر پانی کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے جب کہ دریائے راوی میں شاہدرہ کے مقام پر 40سے 55ہزار کیوسک پانی کا بہائو متوقع ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے دریائے راوی میں نچلی سطح پر سیلاب کی وارننگ جاری کردی گئی اور علاقہ مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کے باعث پنجاب کے دریائوں اور ندی نالوں میں طغیانی ہوسکتی ہے جب کہ دریائے چناب میں پانی کی سطح 2لاکھ کیوسک سے 2لاکھ 50ہزار کیوسک تک بڑھنے کا اندیشہ ہے، جس کے باعث آئندہ 24 گھنٹوں میں دریائے چناب میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔ پی ڈی ایم اے نے دریائے چناب میں آئندہ24گھنٹوں میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ندی نالوں میں طغیانی کے خدشے کے پیش نظر متعلقہ محکموں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ ادھر نارووال کے قریب ظفروال میں نالہ ڈیک میں تین نوجوان ڈوب گئے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق دو نوجوانوں کی لاشیں مل گئیں جب کہ تیسرے کی تلاش جاری ہے، متوفین کا تعلق گائوں ننگل سودکاں سے تھا۔ دوسری جانب سیہون کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ڈیکلیئر کر دیا گیا۔ کچے کے علاقے اور کئی دیہات میں پانی داخل ہوگیا۔ دریائے سندھ میں سیہون کے مقام سے تین لاکھ کیوسک پانی کا ریلا کوٹری بیراج کی طرف رواں دواں ہے۔ اطلاعات کے مطابق سیہون کی یونین کونسل کے 30سے زائد دیہات سیلابی پانی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے ندی نالوں میں طغیانی کے پیش نظر متعلقہ محکموں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ نارووال، سیالکوٹ، شکر گڑھ سمیت دیگر شہروں میں سیلابی نالوں کی مسلسل مانیٹرنگ کی ہدایت بھی کردی۔ بھارت کا یہ اقدام اُس کے خبثِ باطن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی یہ آبی دہشت گردی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو عالمی فورم پر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو آبی دہشت گردی سے باز رکھنے کے لیے ہر بین الاقوامی فورم پر بھرپور انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جائے۔ دُنیا کو بتایا جائے کہ بھارتی آبی جارحیت ہمارے لاکھوں عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ اُن کی زندگی بھر کی جمع پونجی پلک جھپکتے میں ختم ہوجاتی ہے۔ بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں کو بھارت کا یہ ظلم کیوں دِکھائی نہیں دے رہا۔ وہ اس پر چپ سادھے کیوں بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ کم از کم اس پر بھارت کی مذمت تو کر سکتے ہیں، اس میں کیا امر مانع ہے۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ دوسری جانب ابھی سے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کا وار بے کار جائے اور اُسے اپنے کیے کا خود خمیازہ بھگتنا پڑے۔ بھارت سیلاب کا رُخ پاکستان کی جانب موڑ کر دانستہ ملک عزیز کو آفت کا شکار بناتا ہے۔ ایسے اقدامات ناگزیر ہیں کہ بھارت کی جانب سے بھیجا گیا پانی پاکستان میں ذخیرہ ہوجائے۔ اس حوالے سے ان مقامات پر چھوٹے، بڑے آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں، تاکہ بھارت کی جانب سے کی گئی یہ آبی جارحیت پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہو۔ یہ پانی ذخیرہ ہوجائے اور قلت کے دنوں میں قوم کے کام آئے۔
منکی پاکس: سکریننگ نظام
موثر بنانے کی ہدایت
عالمی وبا کرونا وائرس کو 5سال ہونے والے ہیں۔ اس وبا نے پوری دُنیا کو دہلا ڈالا تھا۔ پوری دُنیا مہینوں لاک ڈائون کی کیفیت میں رہی۔ لاکھوں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ فاصلے مقدر بنے۔ وبا کے دنوں میں لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کرتے تھے۔ کرونا وائرس نے پوری دُنیا کے لیے انتہائی تلخ یادیں چھوڑیں۔ خدا کا شکر وطن عزیز میں اس وبا سے اُس بڑے پیمانے پر تباہیاں نہیں مچائیں، جتنا دوسرے ممالک میں دیکھنے میں آئیں۔ پاکستان خاصی حد تک بڑے نقصانات سے محفوظ رہا، لیکن اس وبا کے دوران بڑے بڑے ممالک کی معیشتیں زمین بوس ہوئیں۔ کرونا کے بعد لوگ وبا کے نام سے بھی خوف کھانے لگے۔ اب پچھلے کچھ عرصے سے منکی پاکس کے حوالے سے مسلسل اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ دُنیا کے مختلف ممالک میں اس کے کیسز رپورٹس ہورہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے منکی پاکس کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے چند ایک کیس سامنے آئے ہیں، حکومت نے اس حوالے سے خاصی سرعت سے اقدامات یقینی بنائے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے حکومت بلاتاخیر پیشگی سخت اقدامات کرنے میں مصروفِ عمل ہوگئی ہے۔ وزیراعظم ہائوس میں منکی پاکس سے متعلق گزشتہ روز اہم اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور سرحدوں پر منکی پاکس کی سکریننگ کے نظام کو موثر بنانے کی ہدایت کردی۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں منکی پاکس کی تازہ صورت حال، مرض سے نمٹنے کی پیشگی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ علاوہ ازیں اجلاس میں ٹیسٹنگ لیبارٹریز، لیب کٹس و متعلقہ ادویہ کی دستیابی اور سکریننگ کے نظام سے متعلق بھی شرکا کو آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، قومی ادارہ صحت، این سی او سی کے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار، سیکریٹری اور ڈی جی صحت بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر انٹرنیشنل ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ اور ایئرپورٹس پر انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جب کہ وزیر اعظم نے تمام متعلقہ حکام کو ضروری ہدایات بھی دیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کے شرکا سے گفتگو میں کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منکی پاکس کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا گیا جس کے بعد پاکستان میں بھی اس بیماری کے حوالے سے کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے ملک کے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور سرحدوں پر منکی پاکس کی اسکریننگ کے نظام کو موثر بنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے بارڈر ہیلتھ سروسز کو صورت حال کی بھرپور نگرانی اور سخت سرویلنس کی ہدایت بھی کی۔ منکی پاکس کی روک تھام کے حوالے سے حکومتی اقدامات لائق تحسین ہیں۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے سخت نگرانی کی جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button