مشروط معافی
محمد مبشر انوار(ریاض)
حکومتی زعماء کی بوکھلاہٹ کہیں یا سیاسی حکمت عملی کہ عمران خان کے ہر بیان پر اس کی درگت بنانے سے گریز نہیں کرتے اور حقائق کو ہمیشہ کی طرح توڑ مروڑ کر عوام میں اپنا بیانیہ بنانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ برس نو مئی کے واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے تقریبا ایک سال عمران خان کو مورد الزام ٹھہراتے رہے، اس پر تبری بھیجتے رہے، لیکن کہیں بھی نگران حکومت کی کارکردگی پر ایک لفظ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی، امن و امان قائم رکھنے والے محکموں سے باز پرس نہیں کی گئی۔ بالخصوص اس پس منظر میں کہ جب پورے پنجاب میں تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈائون کی شدت یہ رہی کہ چادر و چار دیواری کا تقدس بری طرح پامال ہوا، جمہوری اقدار کو پاؤں تلے روندا گیا، آئین کی دھجیاں بکھیری گئی لیکن چونکہ یہ سب ن لیگ اور پی ڈی ایم جماعتوں کے حق میں ہو رہا تھا، اس لئے اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طرف پی ڈی ایم کی جماعتیں ببانگ دہل یہ دعویٰ کرتی رہی کہ تحریک انصاف کا نو مئی کا جلسہ انتہائی ناکام تھا اور اس میں مظاہرین کی تعداد سیکڑوں سے زیادہ نہیں تھی، اس کے باوجود نگران حکومت کی کارکردگی اس قدر ناقص رہی کہ وہ مظاہرین کی اس محدود سی جماعت کو بھی کینٹ جانے سے نہ روک سکی اور نہ ہی کور کمانڈر کے گھر کی حفاظت کر پائی البتہ اس وقوعہ کی آڑ میں جس قدر پھرتی اور چابکدستی سے ، تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنان کو حراست میں لیا گیا، وہ حیران کن ہے۔ ایسی مہارت و چابکدستی کہ ایک طرف یہ دعوی کہ مظاہرین کی تعداد انتہائی کم یعنی سینکڑوں میں تھی لیکن جب گرفتاریاں کی گئی تو ہزاروں کی تعداد میں تحریک انصاف کے کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کی موجودگی کو ان جگہوں پر جیو فینسنگ سے ثابت کرنے پر مصر بھی رہے۔ عقل حیران ہے کہ اتنی قابل فورس پاکستان کے پاس ہے کہ ایک شخص کئی ایک مقامات پر، ان واقعات میں ملوث پایا گیا اور اس پر قانون کے برخلاف ایک مقدمہ کی بجائے کئی ایک مقدمات میں نامزد کر دیا گیا۔ صرف شاہ محمود قریشی کی بات کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے علاج کی غرض سے کراچی میں موجود تھے لیکن پنجاب پولیس کی فرض شناسی کہیں یا آقا پرستی یا حکمرانوں کی غلامی قابل ستائش ہے کہ انہیں پنجاب کی کئی ایک جگہوں پر ملوث دکھا کر، ان پر بلوہ کے مقدمات دائر کر دئیے گئے۔ ایسے مقدمات کا انجام، آزاد عدالتوں سے جو ہو سکتا ہے، وہی ہوتا نظر
آ رہا ہے کہ عدالتیں اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہی ہیں جسے بجا طور پر ارتقاء کا عمل کہا جا سکتا ہے اور عدالتیں کسی بھی دباؤ میں آنے کی بجائے آئین و قانون کے مطابق روبہ عمل آتی دکھائی دے رہی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق روبہ عمل آتی دکھائی دے رہی ہیں بلکہ ماضی کے برعکس، اس وقت عدالتی کارروائی کی رفتار بھی قدرے تیز دکھائی دیتی ہے اور حکومتی لائحہ عمل کے برعکس عدالتیں بلاوجہ طوالت سے گریز کرتی ہوئی، فوری فیصلے کر رہی ہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ عدالتیں بھی حقائق کو بخوبی سمجھتے ہوئے، ایسے تمام مقدمات میں اپنی مشقت کو کم کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں اور استغاثہ کو کسی بھی ملزم کے خلاف، جسے بے جا طریقہ سے حراست میں رکھا گیا ہے، تمام تر مقدمات کی فہرست پہلے طلب کرتی ہیں اور پھر استغاثہ کی بدنیتی سے باز رکھنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔ ملزمان کو یکے بعد دیگرے ایک مقدمہ سے رہائی کے بعد دوسرے میں گرفتاری کے عذاب سے بچا کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہیں، اور ایسے سیاسی ملزمان کو انتقامی کارروائی سے محفوظ کر رہی ہیں۔ گو کہ حکومت اس سے اچھی خاصی تلملائی ہوئی نظر آتی ہے لیکن عدالتوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں اور وہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں۔
نو مئی کے واقعات میں، استغاثہ کے تئیں سب
سے سنگین جرم، فوجی تنصیبات کے حوالے سے ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان نے نہ صرف جی ایچ کیو بلکہ کئی ایک دیگر تنصیبات پر بھی حملے کئے ہیں اور انہیں نقصان پہنچایا ہے، جو کسی بھی صورت قابل معافی نہیں، حد تو یہ ہے کہ حکومت اس عمل کو ’’ غداری‘‘ قرار دینے پر تلی ہے ۔ اس ضمن میں حکومت اپنی سی کوشش کر چکی ہے کہ کسی طرح ان واقعات کی آڑ میں تحریک انصاف کو ملک دشمن جماعت قرار دلوا سکے، اس کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کا مقدمہ بنوا سکے، عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کر سکے کہ حکومتی زعماء کا خیال ہے اگر عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کر دیا جائے تو معاملات حسب سابق ان کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ اس گمان کو ایک دہائی قبل تک بھی قابل عمل قرار دیا جا سکتا تھا کہ جس طرح پی ڈی ایم اور دیگر جماعتیں بالعموم جبکہ ن لیگ بالخصوص ریاستی مشینری پر قابض تھی، مقتدرہ کے ساتھ روابط مضبوط تھے، عوام کے پاس متبادل راستہ /قیادت موجود نہیں تھی، یہ بعینہ ممکن تھا جیسے پہلے ن لیگ حکومت میں آتی رہی ہے لیکن اب ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ بالفرض عمران خان کو سیاسی میدان سے دور بھی کر دیا جائے، جو فی الوقت ممکن دکھائی نہیں دے رہا، تو کیا جو جوہری تبدیلیاں خطے میں رو پذیر ہو چکی ہیں، پاکستانی عوام کی نظروں سے قطعی اوجھل نہیں ، بالخصوص بنگلہ دیش میں ہونے والی حالیہ تبدیلی پاکستان پر کیا اثرات مرتب کرے گی، اس سے ممکنہ طور پر مقتدرہ تو واقف ہو گی لیکن پی ڈی ایم جماعتیں بالعموم جبکہ ن لیگ بالخصوص اس سے ناواقف دکھائی دے رہی ہے۔ یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ن لیگ اس لہر سے بچنے کے لئے اپنی آخر ی کوشش میں مصروف عمل ہے اور ہر صورت پنجاب میں عوام کو دبانے میں مگن دکھائی دے رہی ہے کہ انہیں کسی قسم کے احتجاج سے روکنے کے لئے فورا دفعہ 144کا نفاذ کر دیا جاتا ہے کہ کسی بھی صورت عوام سڑکوں پر نہ آ سکے لیکن پنجاب حکومت یہ بھول رہی ہے کہ جب عوامی لاوا ابلتا ہے تو پھر سرکاری اقدامات کو بہا کر لے جاتا ہے، جیسا بنگلہ دیش میں ہوا ہے۔ سویلین قانون نافذ کرنے والے ادارے، عوام کے خلاف کھڑے دکھائی تو دیتے ہیں لیکن عوامی سیلاب ان کو بہا لے جاتا ہے خواہ عوام کو جانوں کے نذرانے دینے پڑیں۔
دوسری طرف فوج جب عوام کے سامنے آتی ہے تو اپنی ہی عوام پر گولی چلانے سے ہمیشہ گریز کرتی ہے کہ فوج کا بنیادی کام ہی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور تاریخ میں آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ کسی بھی ریاست کی فوج عوامی حمایت کے بغیر میدان جنگ میں کامیاب ہوئی ہو، خواہ وہ دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہو۔ فوج کا یہ کا م ہی نہیں کہ وہ اپنی ہی عوام کے سامنے سینہ سپر ہو، یہی صورتحال بنگلہ دیش میں بھی دکھائی دی کہ جب آخری حربہ کے طور پر شیخ حسینہ واجد نے فوج سے عوامی احتجاج قابو کرنے کے لئے کہاتو فوج نے عوامی جذبات کے سامنے بروئے کار آنے کی بجائے حسینہ واجد کو محدود وقت میں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا بصورت دیگر انجام سے حسینہ واجد بھی واقف تھی لہذا فوج کا مشورہ مانتے ہوئے، اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتے ہوئے ملک سے فرار ہو گئی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ایسے فرار کی سہولت بھی نصیب نہیں ہو گی، واللہ اعلم، بہرحال اس کے باوجود حکومت اور مقتدرہ کی جانب سے مسلسل نو مئی کے واقعات پر معاف نہ کرنے کی رٹ سے کیا سمجھا جائے؟ بالخصوص جب پس پردہ یہ افواہیں گردش میں ہوں کہ عمران خان سے مسلسل مذاکرات جاری ہیں، مقتدرہ حکومت کی ناکامی کا مزید بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں، چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں، عوامی جذبات کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے کو ہے، حکومتی ترجمان بھی اکتوبر کے بعد نئے انتخابات یا حکومت گرنے کی تشویش ظاہر کر رہے ہیں، ایسے میں عمران خان کی طرف سے مشروط معافی کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر عوام میں پیش کرنے سے کیا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ حالانکہ عمران خان یہ بات شروع دن سے ہی کر رہے ہیں کہ نو مئی کا واقعہ فالس فلیگ ہے، اس میں تحریک انصاف کے کارکنان ملوث نہیں اور اس کے غیر جانبدارانہ جوڈیشل انکوائری کروائی جائے، آج بھی عمران خان نے اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے کارکنان اس میں ملوث ہیں تو نہ صرف عمران خان انہیں جماعت سے نکال دے گا بلکہ ان کے خلاف کارروائی کی بھی اجازت ہے اور عمران خان معافی بھی مانگ لے گا۔ ویسے میری ذاتی رائے میں، اگر جرم ہوا ہے تو اس کی سزا ہونی چاہئے، اس میں ملوث مجرمان ، خواہ کوءی بھی ہو، اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے تا کہ آئندہ ایسا جرم نہ ہو ، کسی کو نہ معافی طلب کرنی چاہئے او ر نہ ہی کسی کو معافی کی ضمانت دینی چاہئے، جرم ثابت ہونے پر ، عمران خان کو خود کو سزا کے لئے پیش کر دینا چاہئے جبکہ اسی بنیاد پر کسی بھی دوسرے فریق کو غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش پر جرم ثابت ہونے پر سزا ملنی چاہئے نہ کہ مقتدرہ کے ساتھ معاملات طے کرکے، ایئرپورٹ پر عدالتی کارروائیاں کرکے ’’ مشروط معافی تلافی‘‘ کی جائے۔