ہنیہ کے قتل پر ایرانی ردعمل کا غزہ میں جنگ بندی سے کوئی تعلق نہیں
ایران نے کہا ہے غزہ میں جاری لڑائی رکوانا تہران کے لیے ایک "ترجیح” ہے؛ تاہم غزہ میں سیز فائر کی کوششوں کا حماس رہ نما اسماعیل ھنیہ کے قتل پر جوابی اقدام سے کوئی تعلق نہیں۔
تہران کا کہنا کہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا جواب دینا ایران کا "جائز حق” ہے کیونکہ ھنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں قتل کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے ہفتے کی صبح کہا تھا "ہماری ترجیح غزہ میں مستقل جنگ بندی تک پہنچنا ہے، حماس جس بھی معاہدے پر راضی ہو گی اسے ہم بھی تسلیم کریں گے”۔
لیکن انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل نے "حالیہ دہشت گردی کی کارروائی کے ذریعے ہماری قومی سلامتی اور خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہمیں اپنے دفاع کا جائز حق حاصل ہے جس کا غزہ میں جنگ بندی سے مکمل طور پر کوئی تعلق نہیں ہے”۔
خیال رہے کہ حماس کے پولیٹ بیورو اسماعیل ھنیہ کو 31 جولائی کو تہران میں ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل نے ابھی تک اس قتل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جبکہ ایران نے اسرائیل کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس سے بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ایرانی مشن نے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے ردعمل کا وقت اور اس کے نفاذ کا طریقہ ممکنہ جنگ بندی کی قیمت پر نہیں ہوگا‘۔
خیال رہے کہ ایران کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کرنے والے امریکہ، مصر اور قطر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 15 اگست کو دوحہ یا قاہرہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور ان مذاکرات میں اسرائیلی مذاکرات کاروں کی شرکت متوقع ہے۔
تینوں ممالک کے رہ نماؤں نے مزید کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے اور قیدیوں اور زیر حراست افراد کو رہا کیا جائے‘۔ دوسری طرف اسرائیل نے جمعہ کو ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
اسی تناظر میں امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کل جمعہ کو اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کو فون پر مطلع کیا کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے غزہ میں لڑائی روکنے کے لیے جنگ بندی پر زور دیا۔