دنیا

اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت عزہ جنگ کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

سات اکتوبر کو ہونے والے حملوں کے بعد سے اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن اب تک بیروت میں مقیم ایک سینئر رہنما کو ہلاک کرنے کے علاوہ وہ اپنی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں موجود اہم شخصیات تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے۔

لیکن آج صبح حماس کے مطابق ان کے سیاسی رہنما ’صیہونی حملے‘ میں مارے گئے ہیں۔

گزشتہ رات اسماعیل ہنیہ جو غزہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن کئی سالوں سے بیرون ملک مقیم تھے، ایران کے نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ دیگر علاقائی مسلح گروہوں کے سربراہان کے ساتھ وہاں موجود تھے۔

حملے سے متعلق اب تک سامنے آنے والی اطلاعات میں بس اتنا بتایا گیا ہے کہ تہران میں ہونے والے حملے میں اسماعیل ہنیہ اور اُن کے ایک محافظ کو ہلاک کیا گیا ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ غیر ملکی میڈیا کی خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم حماس کے ایک عہدیدار نے اس قتل کو ’شورش میں اضافہ‘ قرار دیا ہے۔ تاہم حماس کی ہی جانب سے اسے ’ایک بزدلانہ کارروائی‘ بھی قرار دیا اور کہا گیا ہے کہ اس کا بدلہ لیا جائے گا۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ غزہ میں جنگ کے دوران اس کا کیا اثر پڑے گا، لیکن ہنیہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر ہونے والے مذاکرات کی نگرانی کر رہے تھے۔

ان کے سخت بیانات کے باوجود تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے زیادہ سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ سال جنوبی اسرائیل پر ہونے والے ہولناک حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

جواب دیں

Back to top button